(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا حميد بن عبد الرحمن، عن داود العطار، عن معمر، عن قتادة، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارحم امتي بامتي ابو بكر، واشدهم في امر الله عمر، واصدقهم حياء عثمان، واعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل، وافرضهم زيد بن ثابت، واقرؤهم ابي بن كعب، ولكل امة امين وامين هذه الامة ابو عبيدة بن الجراح". قال: هذا حسن غريب نعرفه من حديث قتادة إلا من هذا الوجه، وقد رواه ابو قلابة، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، والمشهور حديث ابي قلابة.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ دَاوُدَ الْعَطَّارِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي أَمْرِ اللَّهِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَقْرَؤُهُمْ أُبَيٌّ بْنُ كَعْبٍ، وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينٌ وَأَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَالْمَشْهُورُ حَدِيثُ أَبِي قِلَابَةَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں اور اللہ کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں، اور سب سے زیادہ سچی حیاء والے عثمان بن عفان ہیں، اور حلال و حرام کے سب سے بڑے جانکار معاذ بن جبل ہیں، اور فرائض (میراث) کے سب سے زیادہ جاننے والے زید بن ثابت ہیں، اور سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں، اور ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے اس سند سے صرف قتادہ کی روایت سے جانتے ہیں ۲- اسے ابوقلابہ نے انس کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کیا ہے اور مشہور ابوقلابہ والی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: امین یوں تو سارے صحابہ تھے، مگر ابوعبیدہ رضی الله عنہ اس بات میں ممتاز تھے، اس لیے ان کو «امين الامة»(آج کل کی اصطلاح میں پوری امت کا جنرل سیکریٹری) کا لقب دیا، اسی طرح بہت ساری اچھی صفات میں بہت سے صحابہ مشترک ہیں مگر کسی کسی کی خاص خصوصیت ہے کہ جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس صفت میں ممتاز قرار دیا، جیسے حیاء میں عثمان، قضاء میں علی، میراث میں زید بن ثابت اور قراءت میں ابی بن کعب، وغیرہم رضی الله عنہم، (دیکھیے اگلی حدیث)۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي، حدثنا خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارحم امتي بامتي ابو بكر، واشدهم في امر الله عمر، واصدقهم حياء عثمان، واقرؤهم لكتاب الله ابي بن كعب، وافرضهم زيد بن ثابت، واعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل، الا وإن لكل امة امينا وإن امين هذه الامة ابو عبيدة بن الجراح". هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي أَمْرِ اللَّهِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ، وَأَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينًا وَإِنَّ أَمِينَ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ". هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں اور اللہ کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے زیادہ سچی حیاء والے عثمان ہیں اور اللہ کی کتاب کے سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں اور فرائض (میراث) کے سب سے بڑے جانکار زید بن ثابت ہیں اور حلال و حرام کے سب سے بڑے عالم معاذ بن جبل ہیں اور سنو ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔“
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، قال: سمعت قتادة يحدث، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لابي بن كعب:" إن الله امرني ان اقرا عليك لم يكن الذين كفروا قال: وسماني، قال:" نعم"، فبكى. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وقد روي عن ابي بن كعب، قال: قال لي النبي صلى الله عليه وسلم: فذكر نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَال: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ:" إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا قَالَ: وَسَمَّانِي، قَالَ:" نَعَمْ"، فَبَكَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: قَالَ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی الله عنہ سے فرمایا: ”اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں «لم يكن الذين كفروا»۱؎ پڑھ کر سناؤں، انہوں نے عرض کیا: کیا اس نے میرا نام لیا ہے، آپ نے فرمایا: ”ہاں (یہ سن کر) وہ رو پڑے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابی بن کعب رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”پھر انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی۔“
وضاحت: ۱؎: سورۃ البینۃ: ۱۔ ۲؎: یہ بات اللہ کے نزدیک ابی بن کعب کے مقام و مرتبہ کی دلیل ہے، اور وہ بھی خاص قراءت قرآن میں «ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء»(الجمعة: ۴)
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، اخبرنا شعبة، عن عاصم، قال: سمعت زر بن حبيش يحدث، عن ابي بن كعب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له:" إن الله امرني ان اقرا عليك فقرا عليه لم يكن الذين كفروا من اهل الكتاب فقرا فيها: إن ذات الدين عند الله الحنيفية المسلمة لا اليهودية , ولا النصرانية، من يعمل خيرا فلن يكفره، وقرا عليه: ولو ان لابن آدم واديا من مال لابتغى إليه ثانيا، ولو كان له ثانيا لابتغى إليه ثالثا، ولا يملا جوف ابن آدم إلا التراب، ويتوب الله على من تاب". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير هذا الوجه رواه عبد الله بن عبد الرحمن بن ابزى، عن ابيه، عن ابي بن كعب، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لابي بن كعب:" إن الله امرني ان اقرا عليك القرآن". وقد روى قتادة، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لابي:" إن الله امرني ان اقرا عليك القرآن".(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ، قَال: سَمِعْتُ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ:" إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ فَقَرَأَ عَلَيْهِ لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَقَرَأَ فِيهَا: إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ الْمُسْلِمَةُ لَا الْيَهُودِيَّةُ , وَلَا النَّصْرَانِيَّةُ، مَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُكْفَرَهُ، وَقَرَأَ عَلَيْهِ: وَلَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ لَابْتَغَى إِلَيْهِ ثَانِيًا، وَلَوْ كَانَ لَهُ ثَانِيًا لَابْتَغَى إِلَيْهِ ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ:" إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ". وَقَدْ رَوَى قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأُبَيٍّ:" إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ".
ابی بن کعب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں“، پھر آپ نے انہیں «لم يكن الذين كفروا من أهل الكتاب» پڑھ کر سنایا، اور اس میں یہ بھی پڑھا ۱؎ «إن ذات الدين عند الله الحنيفية المسلمة لا اليهودية ولا النصرانية من يعمل خيرا فلن يكفره»”بیشک دین والی ۲؎ اللہ کے نزدیک تمام ادیان و ملل سے رشتہ کاٹ کر اللہ کی جانب یکسو ہو جانے والی مسلمان عورت ہے نہ کہ یہودی اور نصرانی عورت جو کوئی نیکی کا کام کرے تو وہ ہرگز اس کی ناقدری نہ کرے“، اور آپ نے ان کے سامنے یہ بھی پڑھا: ۳؎ «ولو أن لابن آدم واديا من مال لابتغى إليه ثانيا ولو كان له ثانيا لابتغى إليه ثالثا ولا يملأ جوف ابن آدم إلا التراب ويتوب الله على من تاب»”اگر ابن آدم کے پاس مال کی ایک وادی ہو تو وہ دوسری وادی کی خواہش کرے گا اور اگر اسے دوسری بھی مل جائے تو وہ تیسری چاہے گا، اور آدم زادہ کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی ۴؎، اور جو توبہ کرے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی آئی ہے، ۳- اسے عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابزی نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی سے اور انہوں نے ابی بن کعب سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب سے فرمایا: ”اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں“، ۴- قتادہ نے انس سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی الله عنہ سے فرمایا کہ ”اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں۔“
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ حدیث ارشاد فرمائی، نہ کہ مذکورہ آیت کی طرح تلاوت کی۔ ۲؎: یعنی: شادی کے لیے عورتوں کا انتخاب میں جو «فاظفر بذات الدین» کا حکم نبوی آیا ہے اس «ذات الدین» سے مراد ایسی ہی عورت ہے۔ ۳؎: یعنی: یہ حدیث ارشاد فرمائی، نہ کہ مذکورہ آیت کی طرح تلاوت کی۔ ۴؎: یعنی: موت کے بعد مٹی میں دفن ہو جانے پر ہی یہ خواہش ختم ہو پائے گی۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن انس بن مالك، قال:" جمع القرآن على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم اربعة كلهم من الانصار: ابي بن كعب، ومعاذ بن جبل، وزيد بن ثابت، وابو زيد"، قال: قلت لانس: من ابو زيد؟ قال: احد عمومتي. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" جَمَعَ الْقُرْآنَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَةٌ كُلُّهُمْ مِنَ الْأَنْصَارِ: أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَبُو زَيْدٍ"، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: مَنْ أَبُو زَيْدٍ؟ قَالَ: أَحَدُ عُمُومَتِي. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں قرآن کو چار آدمیوں نے جمع کیا اور وہ سب کے سب انصار میں سے ہیں: ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابوزید ۱؎۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نعم الرجل ابو بكر، نعم الرجل عمر، نعم الرجل ابو عبيدة بن الجراح، نعم الرجل اسيد بن حضير، نعم الرجل ثابت بن قيس بن شماس، نعم الرجل معاذ بن جبل، نعم الرجل معاذ بن عمرو بن الجموح ". قال ابو عيسى: هذا حسن نعرفه من حديث سهيل.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُو بَكْرٍ، نِعْمَ الرَّجُلُ عُمَرُ، نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، نِعْمَ الرَّجُلُ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ، نِعْمَ الرَّجُلُ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، نِعْمَ الرَّجُلُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، نِعْمَ الرَّجُلُ مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُهَيْلٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ہی اچھے لوگ ہیں ابوبکر، عمر، ابوعبیدہ بن جراح، اسید بن حضیر، ثابت بن قیس بن شماس، معاذ بن جبل اور معاذ بن عمرو بن جموح“(رضی الله عنہم)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے ہم اسے صرف سہیل کی روایت سے جانتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن صلة بن زفر، عن حذيفة بن اليمان، قال: جاء العاقب , والسيد إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالا: ابعث معنا امينا، فقال: " فإني سابعث معكم امينا حق امين "، فاشرف لها الناس، فبعث ابا عبيدة بن الجراح رضي الله عنه. قال: وكان ابو إسحاق إذا حدث بهذا الحديث عن صلة , قال: سمعته منذ ستين سنة. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وقد روي عن ابن عمر , وانس رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لكل امة امين وامين هذه الامة ابو عبيدة بن الجراح ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، قَالَ: جَاءَ الْعَاقِبُ , وَالسَّيِّدُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَا: ابْعَثْ مَعَنَا أَمِينًا، فَقَالَ: " فَإِنِّي سَأَبْعَثُ مَعَكُمْ أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ "، فَأَشْرَفَ لَهَا النَّاسُ، فَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. قَالَ: وَكَانَ أَبُو إِسْحَاق إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ صِلَةَ , قَالَ: سَمِعْتُهُ مُنْذُ سِتِّينَ سَنَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ , وَأَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينٌ وَأَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ ".
حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک قوم کا نائب اور سردار دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور دونوں نے عرض کیا: ہمارے ساتھ آپ اپنا کوئی امین روانہ فرمائیں، تو آپ نے فرمایا: ”میں تمہارے ساتھ ایک ایسا امین بھیجوں گا جو حق امانت بخوبی ادا کرے گا“، تو اس کے لیے لوگوں کی نظریں اٹھ گئیں اور پھر آپ نے ابوعبیدہ بن جراح رضی الله عنہ کو روانہ فرمایا۔ راوی حدیث ابواسحاق سبیعی کہتے ہیں: جب وہ اس حدیث کو صلہ سے روایت کرتے تو کہتے ساٹھ سال ہوئے یہ حدیث میں نے ان سے سنی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث ابن عمر اور انس رضی الله عنہما کے واسطے سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے، آپ نے فرمایا: ”ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں“۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، اخبرنا سلم بن قتيبة، وابو داود، عن شعبة، عن ابي إسحاق، قال: قال حذيفة: قلب صلة بن زفر من ذهب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، أَخْبَرَنَا سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، وَأَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ: قَلْبُ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ مِنْ ذَهَبٍ.
بیان کیا ہم سے محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں: مجھے مسلم بن قتیبہ اور ابوداؤد نے خبر دی اور ان دونوں نے شعبہ کے واسطہ سے ابواسحاق سے روایت کی، وہ کہتے ہیں: حذیفہ نے کہا: صلہ بن زفر کا دل سونے کی طرح روشن اور چمکدار ہے۔