كتاب قيام الليل وتطوع النهار کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل 36. بَابُ: كَيْفَ الْوَتْرُ بِثَلاَثٍ باب: تین رکعت وتر پڑھنے کی کیفیت کا بیان؟
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اور غیر رمضان میں کسی میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، آپ چار رکعت پڑھتے تو ان کا حسن اور ان کی طوالت نہ پوچھو ۱؎، پھر چار رکعت پڑھتے تو تم ان کا (بھی) حسن اور ان کی طوالت نہ پوچھو، پھر تین رکعت پڑھتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں، لیکن میرا دل نہیں سوتا“ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التھجد 16 (1147)، التراویح 1 (2013)، المناقب 24 (3569)، صحیح مسلم/المسافرین 17 (738)، سنن ابی داود/الصلاة 316 (1341)، سنن الترمذی/الصلاة 209 (439)، (تحفة الأشراف: 17719) موطا امام مالک/ صلاة اللیل 2 (9)، مسند احمد 6/36، 73، 104 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہاں نہی مقصود نہیں بلکہ مقصود نماز کی تعریف کرنا ہے۔ ۲؎: یعنی میرا دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے، اس وجہ سے سونے سے مجھے کوئی ضرر نہیں پہنچتا، میرا وضو اس سے نہیں ٹوٹتا، واضح رہے کہ یہ بات آپ کی خصوصیات میں سے تھی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی دو رکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 16116) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی تینوں رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني: شاذ
|