كتاب قيام الليل وتطوع النهار کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل 17. بَابُ: الاِخْتِلاَفِ عَلَى عَائِشَةَ فِي إِحْيَاءِ اللَّيْلِ باب: شب بیداری کے سلسلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں راویوں کے اختلاف کا بیان۔
مسروق کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب (رمضان کا آخری) عشرہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب بیداری فرماتے، اور اپنے اہل و عیال کو بیدار کرتے، اور (عبادت کے لیے) کمر بستہ ہو جاتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/لیلة القدر 5 (2024)، صحیح مسلم/الاعتکاف 3 (1174)، سنن ابی داود/الصلاة 318 (1376)، سنن ابن ماجہ/الصوم 57 (1769)، (تحفة الأشراف: 17637)، مسند احمد 6/40، 41 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابواسحاق سبیعی کہتے ہیں کہ میں اسود بن یزید کے پاس آیا، وہ میرے بھائی اور دوست تھے، تو میں نے کہا: اے ابوعمرو! مجھ سے وہ باتیں بیان کریں جن کو ام المؤمنین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق بیان کیا ہے، تو انہوں نے کہا: وہ کہتی ہیں کہ آپ شروع رات میں سوتے تھے، اور اس کے آخر کو زندہ رکھتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین17 (739)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التھجد 15 (1146)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 182 (1365)، (تحفة الأشراف: 16020)، مسند احمد 6/102، 253 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی رات کے آخری حصہ میں جاگ کر عبادت کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نہیں جانتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو، یا رات بھر صبح تک عبادت کی ہو، یا پورے مہینے روزے رکھے ہوں، سوائے رمضان کے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإقامة 178 (1348)، (تحفة الأشراف: 16108)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 2184، 2350 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، اور ان کے پاس ایک عورت (بیٹھی ہوئی) تھی تو آپ نے پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ انہوں نے کہا: فلاں (عورت) ہے جو سوتی نہیں ہے، پھر انہوں نے اس کی نماز کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چپ رہو، تم اتنا ہی کرو جتنے کی تمہیں طاقت ہو، قسم اللہ کی، اللہ نہیں تھکتا ہے یہاں تک کہ تم تھک جاؤ، پسندیدہ دین (عمل) اس کے نزدیک وہی ہے جس پر آدمی مداومت کرے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 32 (43)، التھجد 18 (1151)، صحیح مسلم/المسافرین 32 (785)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الزھد 28 (4238)، (تحفة الأشراف: 17307)، مسند احمد 6/51، ویأتی عند المؤلف فی الإیمان 29 برقم: 5038 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے، آپ نے دو ستونوں کے درمیان میں ایک لمبی رسی دیکھی، تو آپ نے پوچھا: ”یہ رسی کیسی ہے؟“ تو لوگوں نے عرض کیا: زینب (زینب بنت جحش) کی ہے وہ نماز پڑھتی ہیں، جب کھڑے کھڑے تھک جاتی ہیں تو اس سے لٹک جاتی ہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھولو اسے، تم میں سے کوئی بھی ہو جب تک اس کا دل لگے نماز پڑھے، اور جب تھک جائے تو بیٹھ جائے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التھجد 18 (1150)، صحیح مسلم/المسافرین 31 (784)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 308 (1312)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 184 (1371)، (تحفة الأشراف: 1033)، مسند احمد 3/101، 184، 204، 256 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (نماز میں) کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پیر سوج جاتے، تو آپ سے عرض کیا گیا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں (پھر آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں) تو آپ نے فرمایا: ”کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التھجد 6 (1130)، تفسیر الفتح 2 (4836)، الرقاق 20 (6471)، صحیح مسلم/المنافقین 18 (2819)، سنن الترمذی/الصلاة 188 (412)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 200 (1419)، (تحفة الأشراف: 11498)، مسند احمد 4/251، 255 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں پھٹ جاتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 14299)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة 200 (1420) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|