كتاب قيام الليل وتطوع النهار کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل 60. بَابُ: وَقْتِ رَكْعَتَىِ الْفَجْرِ وَذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى نَافِعٍ باب: فجر کی دو رکعت (سنت) کا وقت اور نافع کی روایت میں رواۃ کے اختلاف کا بیان۔
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 15819) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ہلکی پڑھنے کا مطلب ہے کہ آپ فجر کی ان دونوں سنتوں میں قیام و قرأت اور رکوع و سجود وغیرہ میں اختصار سے کام لیتے تھے کیونکہ اس کے بعد آپ کو فجر کی نماز پڑھانی ہوتی تھی جس میں قرات لمبی کی جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: دونوں حدیثیں ہمارے نزدیک غلط ہیں ۱؎ واللہ اعلم۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 584 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: پہلی روایت «نافع عن صفیۃ عن حفصہ» کے طریق سے مروی ہے، صحیح «عن نافع عن ابن عمر عن حفصہ» ہے، اور دوسری روایت کی سند میں «انبأنا شعیب قال حدثنا الاوزاعی» ہے، صحیح «انبأنا یحییٰ قال حدثنا الاوزاعی» ہے، یہ بات اس صورت میں ہے جب ترجمۃ الباب میں «علی» کو «فی» کے معنی میں لیا جائے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذان اور نماز کے درمیان ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 584 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اذان اور اقامت کے درمیان ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 584 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کا بیان ہے کہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذان اور اقامت کے درمیان ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 584 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 584 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب فجر کی اذان کہہ دی جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز سے پہلے دو سجدے کرتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 584 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مؤذن خاموش ہو جاتا تو دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 584 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مؤذن صبح کی نماز کی اذان کہہ کر خاموش ہو جاتا، اور صبح نمودار ہو جاتی، تو نماز کھڑی ہونے سے پہلے ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 584 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھ سے میری بہن حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آپ فجر سے پہلے دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 584 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر طلوع ہو جاتی تو دو رکعتیں پڑھتے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 584 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب فجر طلوع ہو جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوائے دو ہلکی رکعتوں کے کچھ اور نہیں پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 584 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی اذان دے دی جاتی تو نماز کے لیے کھڑے ہونے سے پہلے ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے۔ اور سالم نے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہم سے، اور انہوں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے، (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 584 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے مجھے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے اور یہ فجر طلوع ہو جانے کے بعد پڑھتے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 584 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب فجر روشن ہو جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 584 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1757 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوسلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے کہا: آپ تیرہ رکعتیں پڑھتے، پہلے آٹھ رکعتیں پڑھتے، پھر (ایک رکعت) وتر پڑھتے، پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے، اور جب رکوع کرنا چاہتے تو کھڑے ہو جاتے، اور رکوع کرتے، اور دو رکعتیں صبح کی نماز کی اذان اور اقامت کے درمیان پڑھتے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1757 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابوسلمہ سے مراد ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اذان سنتے تو فجر کی دو رکعتیں پڑھتے، اور انہیں ہلکی پڑھتے تھے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 5484) (صحیح) (اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: نکارت کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ اس مشہور روایت کے مخالف ہے جس میں ہے کہ آپ جب مؤذن اذان سے فارغ ہو جاتا اور صبح نمودار ہو جاتی تو دو ہلکی رکعتیں پڑھتے، لیکن بہتر یہ ہے کہ اسے منکر کے بجائے شاذ کہا جائے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ متن ابن عباس رضی اللہ عنہم سے محفوظ نہیں ہے کیونکہ اسے مسلم نے اپنی صحیح میں «عروۃ عن عائشہ» کے طریق سے روایت کی ہے، اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اذان سن لیتے تو فجر کی دو رکعتیں پڑھتے، اور انہیں ہلکی پڑھتے، اور احتمال اس کا بھی ہے کہ مؤلف کی مراد یہ ہو کہ ابن عباس رضی اللہ عنہم سے جو محفوظ روایت ہے وہ اس متن کے علاوہ ہے، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ شریح حضرمی کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”وہ قرآن کو تکیہ نہیں بناتے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 3802)، مسند احمد 3/449 (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: قرآن کو تکیہ بنانے کے دو معنی ہیں، ایک تو یہ کہ وہ رات کو سوتے نہیں بلکہ رات بھر عبادت کرتے ہیں، دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ قرآن کو یاد نہیں رکھتے، اور اس کی قرات پر مداومت نہیں کرتے، پہلے معنی میں شریح کی تعریف ہے، اور دوسرے میں ان کی مذمت ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
|