كتاب قيام الليل وتطوع النهار کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل 5. بَابُ: التَّرْغِيبِ فِي قِيَامِ اللَّيْلِ باب: قیام اللیل (تہجد) کی ترغیب کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی سو جاتا ہے تو شیطان اس کے سر پر تین گرہیں لگا دیتا ہے، اور ہر گرہ پر تھپکی دے کر کہتا ہے: ابھی رات بہت لمبی ہے، پس سوئے رہ، تو اگر وہ بیدار ہو جاتا ہے، اور اللہ کا ذکر کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، پھر اگر وہ وضو بھی کر لے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے، پھر اگر اس نے نماز پڑھی تو تمام گرہیں کھل جاتی ہیں، اور وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ وہ ہشاس بشاس اور خوش دل ہوتا ہے، ورنہ اس کی صبح اس حال میں ہوتی ہے کہ وہ بد دل اور سست ہوتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التھجد 12 (1142)، بدء الخلق 11 (3269)، موطا امام مالک/المسافرین 28 (776)، (تحفة الأشراف: 13687)، سنن ابی داود/الصلاة 307 (1306)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 174 (1329)، موطا امام مالک/ صلاة السفر 25 (95)، مسند احمد 2/243، 253 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کا ذکر کیا گیا جو رات بھر سوتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی، تو آپ نے فرمایا: ”یہ ایسا آدمی ہے جس کے کانوں میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التھجد 13 (1144)، بدء الخلق 11 (3270)، صحیح مسلم/المسافرین 28 (774)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 174 (1330)، (تحفة الأشراف: 9297)، مسند احمد 1/375، 427 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بعض لوگوں نے کہا کہ کان میں شیطان کا پیشاب کرنا حقیقت ہے گرچہ ہمیں اس کا ادراک نہیں ہوتا، اور بعضوں کے نزدیک یہ کنایہ ہے اس بات سے کہ جو شخص سویا رہتا ہے اور رات کو اٹھ کر نماز نہیں پڑھتا تو شیطان اس کے لیے اللہ کی یاد میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! فلاں شخص کل کی رات نماز سے سویا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی، تو آپ نے فرمایا: ”اس کے کانوں میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1609 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ رحم کرے اس آدمی پر جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے، پھر اپنی بیوی کو بیدار کرے، تو وہ (بھی) نماز پڑھے، اگر نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اور اللہ رحم کرے اس عورت پر جو رات کو اٹھے اور تہجد پڑھے، پھر اپنے شوہر کو (بھی) بیدار کرے، تو وہ بھی تہجد پڑھے، اور اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 307 (1308)، 348 (1450)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 175 (1336)، (تحفة الأشراف: 12860)، مسند احمد 2/250، 436 (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ پانی کے چھینٹے مارنے سے وہ جاگ جائے گا، اور نماز پڑھے گا تو وہ بھی اس کی مستحق ہو گی۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور فاطمہ کو (دروازہ کھٹکھٹا کر) بیدار کیا، اور فرمایا: ”کیا تم نماز نہیں پڑھو گے؟“ تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ انہیں اٹھانا چاہے گا اٹھا دے گا، جب میں نے آپ سے یہ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پلٹ پڑے، پھر میں نے آپ کو سنا، آپ پیٹھ پھیر کر جا رہے تھے اور اپنی ران پر (ہاتھ) مار کر فرما رہے تھے: «وكان الإنسان أكثر شىء جدلا» ”انسان بہت حجتی ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التھجد 5 (1127)، تفسیر الکھف 1 (4724)، الاعتصام 18 (7347)، التوحید 31 (7465)، صحیح مسلم/المسافرین 28 (775)، (تحفة الأشراف: 10070)، مسند احمد 1/112 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں میرے اور فاطمہ کے پاس آئے، اور آپ نے ہمیں نماز کے لیے بیدار کیا، پھر آپ اپنے گھر لوٹ گئے، اور جا کر دیر رات تک نماز پڑھتے رہے، جب آپ نے ہماری کوئی آہٹ نہیں سنی تو آپ دوبارہ ہمارے پاس آئے، اور ہمیں بیدار کیا، اور فرمایا: ”تم دونوں اٹھو، اور نماز پڑھو“، تو میں اٹھ کر بیٹھ گیا، میں اپنی آنکھ مل رہا تھا اور کہہ رہا تھا: ”قسم اللہ کی، ہم اتنی ہی پڑھیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے، ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں، اگر وہ ہمیں بیدار کرنا چاہے گا تو بیدار کر دے گا“ تو یہ سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیٹھ پھیر کر جانے لگے، آپ اپنے ہاتھ سے اپنی ران پر مار رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: ”ہم اتنی ہی پڑھیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے، ۱؎ انسان بہت ہی حجتی ہے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1612 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ علی رضی اللہ عنہ کی بات تھی جسے آپ بطور تعجب دہرا رہے تھے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|