كتاب قيام الليل وتطوع النهار کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل 4. بَابُ: قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ باب: ماہ رمضان میں قیام اللیل (تہجد) کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی، آپ کی نماز کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی نماز پڑھی، پھر آپ نے آنے والی رات میں بھی نماز پڑھی اور لوگ بڑھ گئے تھے، پھر تیسری یا چوتھی رات میں لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف نکلے ہی نہیں، پھر جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”تم نے جو دلچسپی دکھائی اسے میں نے دیکھا، تو تمہاری طرف نکلنے سے مجھے صرف اس چیز نے روک دیا کہ میں ڈرا کہ کہیں وہ تمہارے اوپر فرض نہ کر دی جائے“، یہ رمضان کا واقعہ تھا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 80 (729)، الجمعة 29 (924)، التھجد 5 (1129)، التراویح 1 (2011)، صحیح مسلم/المسافرین 25 (761)، سنن ابی داود/الصلاة 318 (1373)، (تحفة الأشراف: 16594)، موطا امام مالک/رمضان 1 (1)، مسند احمد 6/169، 177 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد یہ اندیشہ باقی نہیں رہا اس لیے تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنے میں اب کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ مشروع ہے، رہا یہ مسئلہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں راتوں میں تراویح کی کتنی رکعتیں پڑھیں، تو دیگر صحیح روایات سے ثابت ہے کہ آپ نے ان راتوں میں اور بقیہ قیام اللیل میں آٹھ رکعتیں پڑھیں اور وتر کی رکعتوں کو ملا کر اکثر گیارہ اور کبھی تیرہ رکعت تک پڑھنا ثابت ہے، یہی صحابہ سے اور خلفاء راشدین سے منقول ہے، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے بیس رکعتیں پڑھیں لیکن یہ روایت منکر اور ضعیف ہے، لائق استناد نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں روزے رکھے، تو آپ ہمارے ساتھ (تراویح کے لیے) کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ مہینے کی سات راتیں باقی رہ گئیں، تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی، پھر چوبیسویں رات کو قیام نہیں کیا، پھر پچیسویں رات کو قیام کیا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ ہماری اس رات کے باقی حصہ میں بھی اسی طرح نفلی نماز پڑھاتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کے حق میں پوری رات کے قیام (کا ثواب) لکھے گا“، پھر آپ نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی، اور نہ آپ نے قیام کیا یہاں تک کہ مہینے کی تین راتیں باقی رہ گئیں، تو آپ نے ستائیسویں رات میں ہمارے ساتھ قیام کیا، اور اپنے اہل و عیال کو بھی جمع کیا یہاں تک کہ ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں ہم سے فلاح چھوٹ نہ جائے، میں نے پوچھا: فلاح کیا ہے؟ کہنے لگے: سحری ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1365 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
نعیم بن زیاد ابوطلحہ کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بشیر رضی اللہ عنہم کو حمص میں منبر پر بیان کرتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے مہینے میں تیئسویں رات کو تہائی رات تک قیام کیا، پھر پچسویں رات کو آدھی رات تک قیام کیا، پھر ستائیسویں رات کو ہم نے آپ کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ ہم فلاح نہیں پا سکیں گے، وہ لوگ سحری کو فلاح کا نام دیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 11642)، مسند احمد 4/272 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|