كتاب قيام الليل وتطوع النهار کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل 35. بَابُ: كَيْفَ الْوِتْرُ بِوَاحِدَةٍ باب: ایک رکعت وتر کیسے پڑھی جائے؟
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو دو رکعت ہے، پھر جب تم ختم کرنے کا ارادہ کرو تو ایک رکعت اور پڑھ لو، یہ جو تم نے پڑھی ہے سب کو (طاق) کر دے گی“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوتر 1 (993)، (تحفة الأشراف: 7374) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور وتر ایک رکعت ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 7657) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز (تہجد) کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز (تہجد) دو دو رکعت ہے، اور تم میں سے کسی کو جب صبح ہو جانے کا خدشہ ہو تو وہ ایک رکعت اور پڑھ لے یہ جو اس نے پڑھی ہے سب کو وتر (طاق) کر دے گی“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوتر 1 (990)، صحیح مسلم/المسافرین 20 (749)، سنن ابی داود/الصلاة 314 (1326)، (تحفة الأشراف: 7225)، موطا امام مالک/ صلاة اللیل 3 (13) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”رات کی نماز (تہجد) دو دو رکعت ہے، تو جب تمہیں صبح ہو جانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ کر اسے وتر کر لو“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1670 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعت پڑھتے تھے، ان میں سے ایک رکعت وتر کی ہوتی تھی، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے تھے۔
تخریج الحدیث: «وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 15 (626)، الوتر 1 (994)، التھجد 3 (1123)، 23 (1160)، الدعوات 5 (6310) صحیح مسلم/المسافرین 17 (736)، سنن ابی داود/الصلاة 316 (1335)، سنن الترمذی/الصلاة 209 (441)، الشمائل 39 (258)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 126 (1198)، موطا امام مالک/ صلاة اللیل 2 (8)، مسند احمد 6/35، 182، (تحفة الأشراف: 16593)، سنن الدارمی/الصلاة 165 (1514)، ویأتی عند المؤلف برقم: 1727 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح ق لكن ذكر الاضطجاع بعد الوتر شاذ والمحفوظ بعد سنة الفجر
|