عبد ہ بن سلیمان اور ابن نمیر نے ہشام سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ پر دوسفید لکیروں والے سانپ کو قتل کرنے کا حکم دیا، کیونکہ وہ بصارت چھین لیتا ہے۔ اور حمل کو نقصان پہنچاتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دھاری والے سانپ کو قتل کرنے کا حکم دیا، کیونکہ وہ نظر کو زائل کر دیتا ہے اور حمل گرا دیتا ہے۔
سفیان بن عیینہ نے زہری سے، انھوں نے سالم سے، انھوں نے اپنے والد (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ) سے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی: "سانپوں کو قتل کردو اور (خصوصاً) دو سفید لکیروں والے اور دم بریدہ کو، کیونکہ یہ حمل گرا دیتے ہیں اور بصارت زائل کردیتے ہیں۔" (سالم نے) کہا: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو جو بھی سانپ ملتا وہ اسے مار ڈالتے، ایک بارابولبابہ بن عبدالمنذر یا زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھا کہ وہ ایک سانپ کا پیچھا کر رہے تھے تو انھوں نے کہا: لمبی مدت سے گھروں میں رہنے والے سانپوں کو (فوری طور پر) ماردینے سے منع کیا گیا ہے۔
حضرت سالم اپنے باپ سے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نقل کرتے ہیں، ”سانپوں کو قتل کر دو، (خصوصاً) دو دھاری والے اور دم کٹے کو، کیونکہ یہ دونوں حمل گرا دیتے ہیں اور نظر زائل کر دیتے ہیں۔“ اس لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جو سانپ بھی مل جاتا اس کو قتل کر دیتے، انہیں ابو لبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا زید بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھ لیا، جبکہ وہ ایک سانپ کا پیچھا کر رہے تھے تو کہا، گھریلو سانپوں کو مارنے سے منع کر دیا گیا ہے۔
وحدثنا حاجب بن الوليد ، حدثنا محمد بن حرب ، عن الزبيدي ، عن الزهري ، اخبرني سالم بن عبد الله ، عن ابن عمر ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يامر بقتل الكلاب، يقول: " اقتلوا الحيات والكلاب واقتلوا ذا الطفيتين والابتر، فإنهما يلتمسان البصر ويستسقطان الحبالى "، قال الزهري: ونرى ذلك من سميهما والله اعلم، قال سالم: قال عبد الله بن عمر: فلبثت لا اترك حية اراها إلا قتلتها، فبينا انا اطارد حية يوما من ذوات البيوت، مر بي زيد بن الخطاب او ابو لبابة وانا اطاردها، فقال: مهلا يا عبد الله، فقلت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم امر بقتلهن، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد نهى عن ذوات البيوت.وحَدَّثَنَا حَاجِبُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ الزُّبَيْدِيِّ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قال: سمعت رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، يَقُولُ: " اقْتُلُوا الْحَيَّاتِ وَالْكِلَابَ وَاقْتُلُوا ذَا الطُّفْيَتَيْنِ وَالْأَبْتَرَ، فَإِنَّهُمَا يَلْتَمِسَانِ الْبَصَرَ وَيَسْتَسْقِطَانِ الْحَبَالَى "، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَنُرَى ذَلِكَ مِنْ سُمَّيْهِمَا وَاللَّهُ أَعْلَمُ، قَالَ سَالِمٌ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: فَلَبِثْتُ لَا أَتْرُكُ حَيَّةً أَرَاهَا إِلَّا قَتَلْتُهَا، فَبَيْنَا أَنَا أُطَارِدُ حَيَّةً يَوْمًا مِنْ ذَوَاتِ الْبُيُوتِ، مَرَّ بِي زَيْدُ بْنُ الْخَطَّابِ أَوْ أَبُو لُبَابَةَ وَأَنَا أُطَارِدُهَا، فَقَالَ: مَهْلًا يَا عَبْدَ اللَّهِ، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِهِنَّ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَى عَنْ ذَوَاتِ الْبُيُوتِ.
زبیدی نے زہری سے روایت کی، کہا: مجھے سالم بن عبد اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ (آوارہ کتوں کو مار دینے کا حکم دیتے تھے، آپ نے فرماتے تھے: "سانپوں اور کتوں کو ماردو اور سفید دھاریوں والے اور دم کٹے سانپ کو (ضرور) مارو، وہ دونوں بصارت زائل کر دیتے ہیں اور ھاملہ عورتوں کا اسقاط کرادیتے ہیں۔" زہری نے کہا: ہمارا خیال ہے یہ ان دونوں کے زہرکی بنا پر ہوتا ہے (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے سے اور ان سے تابعین اور محدثین نے یہی مفہوم اخذ کیا۔ یہی حقیقت ہے) واللہ اعلم۔ سالم نے کہا: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرما یا: میں ایک عرصہ تک کسی بھی سانپ کو دیکھتا تو نہ چھوڑتا۔اسے مار دیتا۔ایک روز میں مدت سے گھر میں رہنے والے ایک سانپ کا پیچھا کررہا تھا کہ زید بن خطاب یا ابو لبابہ رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے تو کہنے لگے: عبداللہ!رک جاؤ۔میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ماردینے کا حکم دیا ہے، انھوں نے کہا: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدت سے گھروں میں رہنے والے سانپوں (کے قتل) سے روکا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیتے ہوئے سنا، آپصلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے، ”سانپوں اور کتوں کو قتل کر دو، دو دھاری والے اور دم بریدہ کو قتل کر دو، کیونکہ یہ بینائی ختم کر دیتے ہیں اور حمل گرا دیتے ہیں۔“ حضرت زیدی کہتے ہیں، ہمارے خیال میں یہ ان کے زہر کا اثر ہے، اصل حقیقت اللہ تعالیٰ جانتا ہے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں، کچھ عرصہ میں ہر اس سانپ کو قتل کر دیتا رہا جس پر میری نظر پڑ جاتی، ایک دن میں ایک سانپ کا پیچھا کر رہا تھا کہ اس دوران میرے پاس زید بن خطاب یا ابو لبابہ گزرے، میں گھریلو سانپ کو بھگا رہا تھا تو اس نے کہا، ٹھہرو! اے ابو عبداللہ! میں نے کہا، میں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے، اس نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو سانپوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا ہے۔
یونس معمر اور صالح سب نے ہمیں زہری سے، اسی سند کے ساتھ حدیث سنائی، البتہ صالح نے کہا: یہاں تک کہ ابو لبابہ بن عبد المنذر اور زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے س (سانپ کا پیچھا کرتے ہو ئے) دیکھا تودونوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدت سے گھروں میں رہنے والے سانپوں سے روکا ہے۔اور یونس کی حدیث میں ہے: "سانپوں کو قتل کرو"انھوں نے"دوسفید دھاریوں والے اور دم کٹے "کے الفا ظ نہیں کہے۔
یہی روایت امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے بیان کرتے ہیں، فرق یہ ہے صالح کہتے ہیں، حتیٰ کہ مجھے ابو لبابہ بن عبدالمنذر اور زید بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھ لیا اور دونوں نے کہا، واقعہ یہ ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو سانپوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا ہے اور یونس کی حدیث میں ہے، ”سانپوں کو قتل کر دو۔“ یہ نہیں کہا، ”دو دھاری والے اور دم کٹے کو۔“
وحدثني محمد بن رمح ، اخبرنا الليث . ح وحدثنا قتيبة بن سعيد ، واللفظ له، حدثنا ليث ، عن نافع ، ان ابا لبابة كلم ابن عمر ليفتح له بابا في داره يستقرب به إلى المسجد، فوجد الغلمة جلد جان، فقال عبد الله: التمسوه فاقتلوه، فقال ابو لبابة : لا تقتلوه فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن قتل الجنان التي في البيوت ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ . ح وحدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ أَبَا لُبَابَةَ كَلَّمَ ابْنَ عُمَرَ لِيَفْتَحَ لَهُ بَابًا فِي دَارِهِ يَسْتَقْرِبُ بِهِ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَوَجَدَ الْغِلْمَةُ جِلْدَ جَانٍّ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: الْتَمِسُوهُ فَاقْتُلُوهُ، فَقَالَ أَبُو لُبَابَةَ : لَا تَقْتُلُوهُ فَإِنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنْ قَتْلِ الْجِنَّانِ الَّتِي فِي الْبُيُوتِ ".
لیث (بن سعد) نے نافع سے روایت کی کہ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بات کی کہ وہ ان کے لیے اپنے گھر (کے احاطے) میں ایک دروازہ کھول دیں جس سے وہ مسجد کے قریب آجا ئیں تو لڑکوں کو سانپ کی ایک کینچلی ملی، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کو قتل مت کرو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چھپے ہو ئے سانپوں کے مارنے سے منع فرمایا: ہے جو گھر وں کے اندر ہو تے ہیں۔
نافع سے روایت ہے کہ ابو لبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے گفتگو کی کہ ان کے لیے اپنے گھر میں دروازہ کھول دیں، اس سے وہ مسجد کے قریب ہو جائیں گے تو بچوں نے وہاں ایک سانپ کی کنج یا کینچلی پائی، اس پر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، اس کو تلاش کر کے قتل کر دو تو ابو لبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، اسے قتل نہ کرو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سانپوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا ہے، جو گھروں میں رہتے ہیں۔
جریر بن حازم نے کہا: ہمیں نافع نے حدیث سنا ئی کہا: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سانپوں کو مار ڈالتے تھے، حتی کہ حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذربدری رضی اللہ عنہ نے ہم لوگوں کو یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مدت سے) گھروں میں رہنے والے سانپوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے۔پھر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رک گئے۔
نافع بیان کرتے ہیں، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہر قسم کے سانپ قتل کر دیتے تھے، حتیٰ کہ ابو لبابہ عبدالمنذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو سانپوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا ہے تو وہ رک گئے۔
عبید اللہ نے کہا: مجھے نافع نے بتا یا کہ انھوں نے حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو حدیث بیان کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (گھریلو) سانپوں کے مارنے سے منع فرمایا۔
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابو لبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (گھریلو) سفید باریک سانپوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔
یحییٰ بن سعید کہہ رہے تھے: مجھے نافع نے خبر دی کہ حضرت ابولبابہ بن عبدا لمنذرانصاری رضی اللہ عنہ۔اور ان کا گھر قبا ء میں تھا وہ مدینہ منورہ منتقل ہو گئے۔ایک دن حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ بیٹھے ہو ئے (ان کی خاطر) اپنا ایک دروازہ کھول رہے تھے کہ اچانک انھوں نے ایک سانپ دیکھا جو گھر آباد کرنے والے (مدت سے گھروں میں رہنے والے) سانپوں میں سے تھا۔گھروالوں نے اس کو قتل کرنا چا ہا تو حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کو۔ان کی مراد گھروں میں رہنے والے سانپوں سے تھے۔مارنے سے منع کیا گیا تھا۔اور دم کٹے اور دوسفید دھاریوں والے سانپوں کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ کہا گیا: یہی دو سانپ ہیں جو نظر چھین لیتے ہیں اور عورتوں کے (پیٹ کے) بچوں کو گرا دیتے ہیں۔
نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گھر قباء میں تھا، وہ مدینہ منتقل ہو گئے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ان کی کھڑکی کھول رہے تھے، اچانک انہوں نے گھر میں آباد سانپوں میں سے ایک سانپ دیکھا تو انہوں نے قتل کرنا چاہا، اس پر حضرت ابو لبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، واقعہ یہ ہے، ان سے یعنی گھروں میں آباد سے منع کر دیا گیا ہے اور دم بریدہ اور دو دھاری والے کے قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور بتایا گیا، وہی دونوں بینائی ختم کر دیتے ہیں اور عورتوں کی اولاد گرا دیتے ہیں۔
عمر بن نافع نے اپنے والد سے روایت کی، کہا: ایک دن حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کے گرے ہو ئے حصے کے قریب مو جو د تھے کہ انھوں نے اچانک سانپ کی ایک کینچلی دیکھی، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس سانپ کو تلا ش کر کے قتل کردو۔حضرت ابو لبابہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے ان سانپوں کو، جو گھروں میں رہتے ہیں قتل کرنےسے منع فرمایا، سوا ئے دم کٹے اور دو سفید دھاریوں والے سانپوں کے کیونکہ یہی دوسانپ ہیں جو نظر کو زائل کر دیتے ہیں اور عورتوں کے حمل کو نقصان پہنچاتے۔
نافع بیان کرتے ہیں، ایک دن، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنی گری دیوار کے پاس تھے اور انہوں نے سانپ کی چمک دیکھی تو کہا، اس سانپ کا پیچھا کرو اور اس کو قتل کر دو، ابو لبابہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ نے ان سانپوں کے قتل کرنے سے منع فرمایا جو گھروں میں ہوتے ہیں، مگر دم کٹا اور دو دھاری والا، کیونکہ وہ دونوں نظر اچک لیتے ہیں اور عورتوں کے پیٹ میں جو حمل ہوتا ہے، اس کا تعاقب کرتے ہیں، یعنی اس کو گرا دیتے ہیں۔
اسامہ کو نافع نے حدیث سنا ئی کہ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، وہ اس قلعے نما حصے کے پاس تھا جووہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رہائش گا ہ کے قریب تھا، وہ اس میں ایک سانپ کی تاک میں تھے، جس طرح لیث بن سعد کی (حدیث: 5828) ہے۔
نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس سے گزرے، جبکہ وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کے پاس واقع محل کے قریب ایک سانپ کی گھات میں تھے، جیسا کہ حدیث لیث بن سعد کی حدیث ہے۔
ابو معاویہ نے اعمش سے، انھوں نے ابرا ہیم سے، انھوں نے اسود سے، انھوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غار میں تھے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر (سورۃ) ﴿وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا﴾نازل ہو ئی، ہم اس سورت کو تازہ بہ تازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے حاصل کر (سیکھ رہے تھے کہ اچانک ایک سانپ نکلا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اس کو مار دو۔ "ہم اس کو مارنے کے لیے جھپٹےتو وہ ہم سے آگے بھا گ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اللہ تعالیٰ نے اس کو تمھا رے (ہاتھوں) نقصان پہنچنےسے بچا لیا جس طرح تمھیں اس کے نقصان سے بچا لیا۔"
حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم ایک غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور سورہ مرسلات اتر چکی تھی اور ہم آپ سے براہ راست تازہ تازہ سیکھ رہے تھے کہ اچانک ہمارے سامنے ایک سانپ نکلا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے قتل کر دو۔“ سو ہم اس کے قتل کرنے کے لیے اس کی طرف لپکے تو وہ ہم سے نکل گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے اس کو تمہارے شر سے بچا لیا، جیسا کہ تمہیں اس کے شر سے بچا لیا۔“
ابو کریب نے کہا: ہمیں حفص نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں اعمش نے ابرا ہم سے حدیث بیان کی، انھوں نے اسود سے، انھوں نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں احرام والے ایک شخص کو سانپ مارنے کا حکم دیا۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک محرم کو منیٰ میں سانپ کو قتل کرنے کا حکم دیا۔
عمر بن حفص بن غیاث نے کہا: ہمیں میرے والد نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں اعمش نے حدیث سنائی، کہا: مجھے ابرا ہیم نے اسود سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک غار میں تھےجس طرح جریر اور ابو معاویہ کی حدیث ہے۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غار میں تھے کہ اسی اثناء میں۔۔۔ آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔
وحدثني ابو الطاهر احمد بن عمرو بن سرح ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرني مالك بن انس ، عن صيفي وهو عندنا مولى ابن افلح ، اخبرني ابو السائب مولى هشام بن زهرة ، انه دخل على ابي سعيد الخدري في بيته، قال: فوجدته يصلي، فجلست انتظره حتى يقضي صلاته، فسمعت تحريكا في عراجين في ناحية البيت، فالتفت فإذا حية فوثبت لاقتلها، فاشار إلي ان اجلس فجلست فلما انصرف اشار إلى بيت في الدار، فقال: اترى هذا البيت؟، فقلت: نعم، قال: كان فيه فتى منا حديث عهد بعرس، قال: فخرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الخندق، فكان ذلك الفتى يستاذن رسول الله صلى الله عليه وسلم بانصاف النهار، فيرجع إلى اهله، فاستاذنه يوما، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خذ عليك سلاحك فإني اخشى عليك قريظة "، فاخذ الرجل سلاحه ثم رجع، فإذا امراته بين البابين قائمة، فاهوى إليها الرمح ليطعنها به، واصابته غيرة، فقالت له: اكفف عليك رمحك وادخل البيت حتى تنظر ما الذي اخرجني، فدخل فإذا بحية عظيمة منطوية على الفراش، فاهوى إليها بالرمح فانتظمها به، ثم خرج فركزه في الدار، فاضطربت عليه، فما يدرى ايهما كان اسرع موتا الحية ام الفتى، قال: فجئنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرنا ذلك له، وقلنا ادع الله يحييه لنا، فقال: " استغفروا لصاحبكم "، ثم قال: " إن بالمدينة جنا قد اسلموا، فإذا رايتم منهم شيئا، فآذنوه ثلاثة ايام، فإن بدا لكم بعد ذلك، فاقتلوه فإنما هو شيطان ".وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ صَيْفِيٍّ وَهُوَ عِنْدَنَا مَوْلَى ابْنِ أَفْلَح ، أَخْبَرَنِي أَبُو السَّائِبِ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زُهْرَةَ ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ فِي بَيْتِهِ، قَالَ: فَوَجَدْتُهُ يُصَلِّي، فَجَلَسْتُ أَنْتَظِرُهُ حَتَّى يَقْضِيَ صَلَاتَهُ، فَسَمِعْتُ تَحْرِيكًا فِي عَرَاجِينَ فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا حَيَّةٌ فَوَثَبْتُ لِأَقْتُلَهَا، فَأَشَارَ إِلَيَّ أَنِ اجْلِسْ فَجَلَسْتُ فَلَمَّا انْصَرَفَ أَشَارَ إِلَى بَيْتٍ فِي الدَّارِ، فَقَالَ: أَتَرَى هَذَا الْبَيْتَ؟، فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: كَانَ فِيهِ فَتًى مِنَّا حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ، قَالَ: فَخَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْخَنْدَقِ، فَكَانَ ذَلِكَ الْفَتَى يَسْتَأْذِنُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنْصَافِ النَّهَارِ، فَيَرْجِعُ إِلَى أَهْلِهِ، فَاسْتَأْذَنَهُ يَوْمًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُذْ عَلَيْكَ سِلَاحَكَ فَإِنِّي أَخْشَى عَلَيْكَ قُرَيْظَةَ "، فَأَخَذَ الرَّجُلُ سِلَاحَهُ ثُمَّ رَجَعَ، فَإِذَا امْرَأَتُهُ بَيْنَ الْبَابَيْنِ قَائِمَةً، فَأَهْوَى إِلَيْهَا الرُّمْحَ لِيَطْعُنَهَا بِهِ، وَأَصَابَتْهُ غَيْرَةٌ، فَقَالَتْ لَهُ: اكْفُفْ عَلَيْكَ رُمْحَكَ وَادْخُلِ الْبَيْتَ حَتَّى تَنْظُرَ مَا الَّذِي أَخْرَجَنِي، فَدَخَلَ فَإِذَا بِحَيَّةٍ عَظِيمَةٍ مُنْطَوِيَةٍ عَلَى الْفِرَاشِ، فَأَهْوَى إِلَيْهَا بِالرُّمْحِ فَانْتَظَمَهَا بِهِ، ثُمَّ خَرَجَ فَرَكَزَهُ فِي الدَّارِ، فَاضْطَرَبَتْ عَلَيْهِ، فَمَا يُدْرَى أَيُّهُمَا كَانَ أَسْرَعَ مَوْتًا الْحَيَّةُ أَمْ الْفَتَى، قَالَ: فَجِئْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهُ، وَقُلْنَا ادْعُ اللَّهَ يُحْيِيهِ لَنَا، فَقَالَ: " اسْتَغْفِرُوا لِصَاحِبِكُمْ "، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ بِالْمَدِينَةِ جِنًّا قَدْ أَسْلَمُوا، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهُمْ شَيْئًا، فَآذِنُوهُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَإِنْ بَدَا لَكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ، فَاقْتُلُوهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ ".
امام مالک بن انس نے، ابن افلح کے آزاد کردہ غلام صیفی سے روایت کی، کہا: مجھے ہشام بن زہرہ کے آزاد کردہ غلام ابو سائب نے بتایا کہ وہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے گھر گئے۔ ابوسائب نے کہا کہ میں نے ان کو نماز میں پایا تو بیٹھ گیا۔ میں نماز پڑھ چکنے کا منتظر تھا کہ اتنے میں ان لکڑیوں میں کچھ حرکت کی آواز آئی جو گھر کے کونے میں رکھی تھیں۔ میں نے ادھر دیکھا تو ایک سانپ تھا۔ میں اس کے مارنے کو دوڑا تو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جا۔ میں بیٹھ گیا جب نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے ایک کوٹھری دکھاتے ہوئے پوچھا کہ یہ کوٹھڑی دیکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں، انہوں نے کہا کہ اس میں ہم لوگوں میں سے ایک جوان رہتا تھا، جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خندق کی طرف نکلے۔ وہ جوان دوپہر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر گھر آیا کرتا تھا۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہتھیار لے کر جا کیونکہ مجھے بنی قریظہ کا ڈر ہے (جنہوں نے دغابازی کی تھی اور موقع دیکھ کر مشرکوں کی طرف ہو گئے تھے)۔ اس شخص نے اپنے ہتھیار لے لئے۔ جب اپنے گھر پر پہنچا تو اس نے اپنی بیوی کو دیکھا کہ دروازے کے دونوں پٹوں کے درمیان کھڑی ہے۔ اس نے غیرت سے اپنا نیزہ اسے مارنے کو اٹھایا تو عورت نے کہا کہ اپنا نیزہ سنبھال اور اندر جا کر دیکھ تو معلوم ہو گا کہ میں کیوں نکلی ہوں۔ وہ جوان اندر گیا تو دیکھا کہ ایک بڑا سانپ کنڈلی مارے ہوئے بچھونے پر بیٹھا ہے۔ جوان نے اس پر نیزہ اٹھایا اور اسے نیزہ میں پرو لیا، پھر نکلا اور نیزہ گھر میں گاڑ دیا۔ وہ سانپ اس پر لوٹا اس کے بعد ہم نہیں جانتے کہ سانپ پہلے مرا یا جوان پہلے شہید ہوا۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا قصہ بیان کیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ اس جوان کو پھر جلا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے ساتھی کے لئے بخشش کی دعا کرو۔ پھر فرمایا کہ مدینہ میں جن رہتے ہیں جو مسلمان ہو گئے ہیں، پھر اگر تم سانپوں کو دیکھو تو تین دن تک ان کو خبردار کرو، اگر تین دن کے بعد بھی نہ نکلیں تو ان کو مار ڈالو کہ وہ شیطان ہیں (یعنی کافر جن ہیں یا شریر سانپ ہیں)۔
ہشام بن زہرہ کے ایک آزاد کردہ غلام ابو سائب بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ان کے گھر گیا تو میں نے انہیں نماز پڑھتے پایا تو میں ان کے انتظار میں بیٹھ گیا تاکہ وہ اپنی نماز سے فارغ ہو جائیں، سو میں نے گھر کے ایک کونے میں پڑی کھجور کی چھڑیوں میں حرکت سنی، میں متوجہ ہوا تو وہاں سانپ تھا، میں اس کو قتل کرنے کے لیے جھپٹا تو انہوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا، سو میں بیٹھ گیا، جب انہوں نے سلام پھیرا تو انہوں نے گھر میں ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا یا حویلی کے ایک گھر کی طرف اشارہ کیا اور کہا، کیا تم یہ گھر دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا، جی ہاں، انہوں نے کہا، اس میں نئی نئی شادی والا ہمارا ایک نوجوان تھا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خندق کی طرف چلے گئے، وہ نوجوان دوپہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر، اپنی بیوی کے پاس لوٹ آتا، اس نے ایک دن آپ سے اطازت طلب کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”ہتھیار بند کر جاؤ، کیونکہ مجھے تیرے بارے میں بنو قریظہ سے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔“ اس آدمی نے اپنا اسلحہ لے لیا، پھر واپس گھر پہنچا تو اس کی بیوی دروازے کے دونوں کواڑوں کے درمیان کھڑی تھی تو اس نے اس کی طرف، اسے مارنے کے لیے نیزہ جھکایا، کیونکہ اسے غیرت آ گئی تھی (کہ یہ باہر کیوں کھڑی ہے) تو اس کی بیوی نے کہا، اپنا نیزہ روکو اور گھر میں داخل ہو کر دیکھو، میں کیوں نکلی ہوں، وہ داخل ہوا تو اس نے ایک بہت بڑا سانپ بستر پر کنڈلی مارے ہوئے پایا، اس نے اس کی طرف نیزہ جھکایا اور اسے اس میں پرو لیا، پھر باہر نکل کر اسے حویلی میں گاڑ دیا، وہ سانپ اس کی طرف لوٹا تو پتہ نہ چل سکا، ان میں سے پہلے کون مرا، سانپ یا نوجوان؟ تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ واقعہ سنایا اور عرض کیا، اللہ سے دعا کیجئے، اللہ اس کو ہماری خاطر زندگی عطا فرما دے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے ساتھی کے لیے بخشش طلب کرو۔“ پھر فرمایا: ”مدینہ میں کچھ جن اسلام لا چکے ہیں، اس لیے جب تم ان میں سے کسی کو دیکھو تو اسے تین دن آگاہ کرو، اگر اس کے بعد پھر تمہارے سامنے آئے تو اسے قتل کر دو، کیونکہ وہ شیطان ہے۔“
جریر بن حا زم نے کہا: میں نے اسماء بن عبید کو ایک آدمی سے حدیث بیان کرتے ہو ئے سنا، جسے سائب کہا جا تا تھا۔وہ ہمارے نزدیک ابو سائب ہیں۔ انھوں نے کہا: ہم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہو ئے، ہم بیٹھے ہو ئے تھے جب ہم نے ان کی چار پا ئی کے نیچے (کسی چیز کی) حرکت کی آواز سنی۔ہم نے دیکھا تو وہ ایک سانپ تھا، پھر انھوں نے پو رے واقعے سمیت صیفی سے امام مالک کی روایت کردہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی، اور اس میں کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " ان گھروں میں کچھ مخلوق آباد ہے۔ جب تم ان میں سے کوئی چیز دیکھو تو تین دن تک ان پر تنگی کرو (تا کہ وہ خود وہاں سے کہیں اور چلے جا ئیں) اگر وہ پہلے جا ئیں (تو ٹھیک) ورنہ ان کو مار دوکیونکہ پھر وہ (نہ جا نے والا) کا فر ہے۔"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "جاؤاور اپنے ساتھی کو دفن کردو۔"
ابو سائب بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاں گئے، ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہم نے ان کی چارپائی کے نیچے حرکت سنی، ہم نے دیکھا تو وہ سانپ تھا، آگے مذکورہ بالا واقعہ اور حدیث بیان کی اور یہ بھی بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان گھروں کو آباد کرنے واکے ہیں تو جب تم ان میں سے کسی کو دیکھو تو اس کے لیے تین دن تنگی کرو، یعنی صرف تین دن رہنے کا موقعہ دو، اگر وہ چلا جائے تو ٹھیک ہے، وگرنہ اسے قتل کر دو، کیونکہ وہ کافر ہے۔“ اور انصار کو فرمایا: ”جاؤ اپنے ساتھی کو دفن کر دو۔“
ابن عجلا ن نے کہا: مجھے صیفی نے ابو سائب سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا ؛ میں نے ان (حضرت ابو خدری رضی اللہ عنہ) کو یہ کہتے ہو ئے سنا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مدینہ میں جنوں کی کچھ نفری رہتی ہے جو مسلمان ہو گئے ہیں جو شخص ان (پرانے) رہائشیوں میں سے کسی کو دیکھتے تو تین دن تک اسے (جا نےکو) کہتا رہے۔اس کے بعد اگر وہ اس کے سامنے نمودار ہو تو اسے قتل کر دے، کیونکہ وہ شیطان (ایمان نہ لا نے والا جن) ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ میں کچھ جن ہیں، جو مسلمان ہو چکے ہیں تو جو ان گھروں کو آباد کرنے والے کسی جن کو دیکھے تو اسے تین دن تک اجازت دے، اگر اس کے بعد سامنے آئے تو اسے قتل کر دے، کیونکہ وہ شیطان ہے۔“