كِتَاب السَّلَامِ سلامتی اور صحت کا بیان The Book of Greetings 7. باب إِبَاحَةُ الْخُرُوجِ لِلنِّسَاءِ لِقَضَاءِ حَاجَةِ الإِنْسَانِ: باب: عورتوں کو ضروری حاجت کے لیے باہر نکلنا درست ہے۔ Chapter: The Permissibility Of Women Going Out To Relieve Themselves حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: خرجت سودة بعد ما ضرب عليها الحجاب لتقضي حاجتها، وكانت امراة جسيمة تفرع النساء جسما لا تخفى على من يعرفها، فرآها عمر بن الخطاب، فقال يا سودة: والله ما تخفين علينا فانظري كيف تخرجين؟ قالت: فانكفات راجعة ورسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي، وإنه ليتعشى وفي يده عرق فدخلت، فقالت: يا رسول الله، إني خرجت فقال لي عمر كذا وكذا، قالت: فاوحي إليه ثم رفع عنه، وإن العرق في يده ما وضعه، فقال: " إنه قد اذن لكن ان تخرجن لحاجتكن "، وفي رواية ابي بكر يفرع النساء جسمها، زاد ابو بكر في حديثه، فقال هشام: يعني البراز.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قالت: خَرَجَتْ سَوْدَةُ بَعْدَ مَا ضُرِبَ عَلَيْهَا الْحِجَابُ لِتَقْضِيَ حَاجَتَهَا، وَكَانَتِ امْرَأَةً جَسِيمَةً تَفْرَعُ النِّسَاءَ جِسْمًا لَا تَخْفَى عَلَى مَنْ يَعْرِفُهَا، فَرَآهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ يَا سَوْدَةُ: وَاللَّهِ مَا تَخْفَيْنَ عَلَيْنَا فَانْظُرِي كَيْفَ تَخْرُجِينَ؟ قَالَتْ: فَانْكَفَأَتْ رَاجِعَةً وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم في بيتي، وإنه ليتعشى وفي يده عرق فدخلت، فقالت: يا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي خَرَجْتُ فَقَالَ لِي عُمَر ُ كَذَا وَكَذَا، قَالَتْ: فَأُوحِيَ إِلَيْهِ ثُمَّ رُفِعَ عَنْهُ، وَإِنَّ الْعَرْقَ فِي يَدِهِ مَا وَضَعَهُ، فَقَالَ: " إِنَّهُ قَدْ أُذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِكُنَّ "، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ يَفْرَعُ النِّسَاءَ جِسْمُهَا، زَادَ أَبُو بَكْرٍ فِي حَدِيثِهِ، فَقَالَ هِشَامٌ: يَعْنِي الْبَرَازَ. ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب نے کہا: ہمیں ابو اسامہ نے ہشام سے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: پردہ ہم پرلاگو ہوجانےکےبعد حضرت سودہ رضی اللہ عنہا قضائے حاجت کے لیے باہر نکلیں، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا جسامت میں بڑی تھیں، جسمانی طور پر عورتوں سے اونچی (نظر آتی) تھیں۔جوشخص انہیں جانتا ہو (پردے کے باوجود) اس کے لیے مخفی نہیں رہتی تھی، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انھیں دیکھ کر کہا: سودہ رضی اللہ عنہا!اللہ کی قسم!آپ ہم سے پوشیدہ نہیں رہ سکتیں اس لیے دیکھ لیجئے آپ کیسے باہر نکلا کریں گی۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: حضرت سودہ رضی اللہ عنہا (یہ سنتے ہی) الٹے پاؤں لوٹ آئیں اور (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں رات کا کھانا تناول فرما رہے تھے۔آپ کے دست مبارک میں گوشت والی ایک ہڈی تھی وہ اندر آئیں اور کہنے لگیں۔اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں باہر نکلی تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس اس طرح کہا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اسی وقت اللہ تعا لیٰ نے آپ پر وحی نازل فر ما ئی، پھر آپ سے وحی کی کیفیت زائل ہو گئی، ہڈی اسی طرح آپ کے ہاتھ میں تھی، آپ نے اسے رکھا نہیں تھا، آپ نے فرمایا: تم سب (امہات المومنین) کو اجازت دے دی گئی ہے کہ تم ضرورت کے لیے باہر جا سکتی ہو۔" ابوبکر (ابن ابی شیبہ) کی روایت میں ہے: "ان کا جسم عورتوں سے اونچاتھا "ابو بکر نے اپنی حدیث (کی سند) میں یہ اضافہ کیا: تو ہشام نے کہا: آپ کا مقصود قضائے حاجت کے لیے جا نے سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد اپنی ضرورت انسانی پورا کرنے کے لیے نکلیں اور وہ بھاری بھر کم عورت تھیں، عورتوں سے ان کا جسم لمبا تھا، جاننے والوں سے وہ پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں دیکھ کر کہا، اے سودہ! اللہ کی قسم! آپ ہم سے مخفی نہیں رہ سکتیں، سو آپ سوچیں، آپ کیسے باہر نکلیں گی، وہ وہیں سے واپس پلٹ گئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے اور آپ شام کا کھانا تناول فرما رہے تھے، اور آپ کے ہاتھ میں ایک ہڈی تھی، حضرت سودہ داخل ہو کر کہنے لگیں، اے اللہ کے رسول! میں نکلی تو عمر نے مجھے یہ یہ کہا تو آپ پر وحی کا نزول شروع ہو گیا، پھر یہ کیفیت دور ہوئی، ہڈی آپ کے ہاتھ میں تھی، آپ نے اسے رکھا نہ تھا، سو آپ نے فرمایا: ”تمہیں قضائے حاجت کے لیے نکلنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔“ ابوبکر کی روایت میں ہے، اس کا جسم عورتوں سے بلند تھا، ابوبکر نے اپنی حدیث میں ہشام سے یہ اضافہ بھی بیان کیا، وہ قضائے حاجت کے لیے کھلے میدان میں جانے کے لیے نکلیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا ابو كريب ، حدثنا ابن نمير ، حدثنا هشام بهذا الإسناد، وقال: وكانت امراة يفرع الناس جسمها، قال: وإنه ليتعشى.وحدثنا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: وَكَانَتِ امْرَأَةً يَفْرَعُ النَّاسَ جِسْمُهَا، قَالَ: وَإِنَّهُ لَيَتَعَشَّى. ابن نمیر نے کہا: ہشام نے ہمیں اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور کہا: وہ ایسی خاتون تھیں کہ ان کاجسم لوگوں سے اونچا (نظر آتا) تھا۔ (یہ بھی) کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کا کھانا تناول فرمارہے تھے۔ امام صاحب کو یہی روایت ایک اور استاد نے سنائی، اس میں ہے، وہ ایک ایسی عورت تھی جو لوگوں سے اپنے جسامت کے اعتبار سے بلند و بالا تھی، اور اس میں یہ ہے، آپ شام کا کھانا کھا رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
علی بن مسہر نے ہشام سے اسی سند کے ساتھ ہمیں حدیث بیان کی۔ یہی روایت امام صاحب کو ایک اور استاد نے سنائی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا عبد الملك بن شعيب بن الليث ، حدثني ابي ، عن جدي ، حدثني عقيل بن خالد ، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة ، ان ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم كن يخرجن بالليل إذا تبرزن إلى المناصع وهو صعيد افيح، وكان عمر بن الخطاب، يقول لرسول الله صلى الله عليه وسلم: احجب نساءك، فلم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعل، فخرجت سودة بنت زمعة زوج النبي صلى الله عليه وسلم ليلة من الليالي عشاء، وكانت امراة طويلة، فناداها عمر الا قد عرفناك يا سودة حرصا على ان ينزل الحجاب، قالت عائشة: " فانزل الله عز وجل الحجاب ".حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ أَزْوَاجّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنَّ يَخْرُجْنَ بِاللَّيْلِ إِذَا تَبَرَّزْنَ إِلَى الْمَنَاصِعِ وَهُوَ صَعِيدٌ أَفْيَح، وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، يَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: احْجُبْ نِسَاءَكَ، فَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ، فَخَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي عِشَاءً، وَكَانَتِ امْرَأَةً طَوِيلَةً، فَنَادَاهَا عُمَرُ أَلَا قَدْ عَرَفْنَاكِ يَا سَوْدَةُ حِرْصًا عَلَى أَنْ يُنْزَلَ الْحِجَابُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: " فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْحِجَابَ ". عقیل بن خالد نے ابن شہاب سے، انھوں نے عروہ بن زبیر سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج جب رات کو قضائے حاجت کے لئے باہر نکلتیں تو"المناصع" کی طرف جاتی تھیں، وہ دور ایک کھلی، بڑی جگہ ہے۔اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کرتے رہتے تھے کہ آپ اپنی ازواج کو پردہ کرائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کسی حکمت کی بنا پر) ایسا نہیں کرتے تھے، پھر ایک رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا عشاء کے وقت (قضائے حاجت کے لئے) باہرنکلیں، وہ دراز قدخاتون تھیں، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس حرص میں کہ حجاب نازل ہوجائے، پکار کر ان سے کہا: سودہ! ہم نے آپ کو پہچان لیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس پر اللہ تعالیٰ نے حجاب نازل فرمادیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں، جب قضائے حاجت کے لیے نکلنا چاہتیں، وہ رات کو مناصع کی طرف نکلتیں، جو ایک وسیع میدان تھا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتے تھے، اپنی عورتوں کو پردہ کرائیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حکم خداوندی کے بغیر) یہ کام نہیں کرتے تھے، راتوں میں سے کسی رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سودہ رضی اللہ تعالی عنہا شام کے بعد نکلی اور وہ ایک بلند و بالا عورت تھی، حضرت عمر ؓ نے اسے آواز دی، سن لو! ہم نے آپ کو پہچان لیا ہے، اے سودہ! ان کی خواہش تھی، پردہ کا حکم نازل ہو، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پردے کا حکم نازل فرما دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خواہش تھی کہ ازواج مطہرات کسی صورت میں گھر سے نہ نکلیں وہ پردہ کے ساتھ نکلنے پر بھی مطمئن نہ تھے اس لیے پردہ کے ساتھ نکلنے پر بھی اعتراض کیا، تاکہ پردہ کے ساتھ نکلنے پر بھی پابندی عائد ہو جائے اس لیے پردہ کے بارے میں آیت دوبارہ اتری جس میں ضرورت کے تحت پردہ کے ساتھ نکلنے کی اجازت برقرار ہے جس کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
صالح نے ابن شہاب سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی۔ امام صاحب کو یہی روایت ایک اور استاد نے سنائی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|