امام مالک بن انس نے، ابن افلح کے آزاد کردہ غلام صیفی سے روایت کی، کہا: مجھے ہشام بن زہرہ کے آزاد کردہ غلام ابو سائب نے بتایا کہ وہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے گھر گئے۔ ابوسائب نے کہا کہ میں نے ان کو نماز میں پایا تو بیٹھ گیا۔ میں نماز پڑھ چکنے کا منتظر تھا کہ اتنے میں ان لکڑیوں میں کچھ حرکت کی آواز آئی جو گھر کے کونے میں رکھی تھیں۔ میں نے ادھر دیکھا تو ایک سانپ تھا۔ میں اس کے مارنے کو دوڑا تو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جا۔ میں بیٹھ گیا جب نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے ایک کوٹھری دکھاتے ہوئے پوچھا کہ یہ کوٹھڑی دیکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں، انہوں نے کہا کہ اس میں ہم لوگوں میں سے ایک جوان رہتا تھا، جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خندق کی طرف نکلے۔ وہ جوان دوپہر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر گھر آیا کرتا تھا۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہتھیار لے کر جا کیونکہ مجھے بنی قریظہ کا ڈر ہے (جنہوں نے دغابازی کی تھی اور موقع دیکھ کر مشرکوں کی طرف ہو گئے تھے)۔ اس شخص نے اپنے ہتھیار لے لئے۔ جب اپنے گھر پر پہنچا تو اس نے اپنی بیوی کو دیکھا کہ دروازے کے دونوں پٹوں کے درمیان کھڑی ہے۔ اس نے غیرت سے اپنا نیزہ اسے مارنے کو اٹھایا تو عورت نے کہا کہ اپنا نیزہ سنبھال اور اندر جا کر دیکھ تو معلوم ہو گا کہ میں کیوں نکلی ہوں۔ وہ جوان اندر گیا تو دیکھا کہ ایک بڑا سانپ کنڈلی مارے ہوئے بچھونے پر بیٹھا ہے۔ جوان نے اس پر نیزہ اٹھایا اور اسے نیزہ میں پرو لیا، پھر نکلا اور نیزہ گھر میں گاڑ دیا۔ وہ سانپ اس پر لوٹا اس کے بعد ہم نہیں جانتے کہ سانپ پہلے مرا یا جوان پہلے شہید ہوا۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا قصہ بیان کیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ اس جوان کو پھر جلا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے ساتھی کے لئے بخشش کی دعا کرو۔ پھر فرمایا کہ مدینہ میں جن رہتے ہیں جو مسلمان ہو گئے ہیں، پھر اگر تم سانپوں کو دیکھو تو تین دن تک ان کو خبردار کرو، اگر تین دن کے بعد بھی نہ نکلیں تو ان کو مار ڈالو کہ وہ شیطان ہیں (یعنی کافر جن ہیں یا شریر سانپ ہیں)۔
ہشام بن زہرہ کے ایک آزاد کردہ غلام ابو سائب بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ان کے گھر گیا تو میں نے انہیں نماز پڑھتے پایا تو میں ان کے انتظار میں بیٹھ گیا تاکہ وہ اپنی نماز سے فارغ ہو جائیں، سو میں نے گھر کے ایک کونے میں پڑی کھجور کی چھڑیوں میں حرکت سنی، میں متوجہ ہوا تو وہاں سانپ تھا، میں اس کو قتل کرنے کے لیے جھپٹا تو انہوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا، سو میں بیٹھ گیا، جب انہوں نے سلام پھیرا تو انہوں نے گھر میں ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا یا حویلی کے ایک گھر کی طرف اشارہ کیا اور کہا، کیا تم یہ گھر دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا، جی ہاں، انہوں نے کہا، اس میں نئی نئی شادی والا ہمارا ایک نوجوان تھا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خندق کی طرف چلے گئے، وہ نوجوان دوپہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر، اپنی بیوی کے پاس لوٹ آتا، اس نے ایک دن آپ سے اطازت طلب کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”ہتھیار بند کر جاؤ، کیونکہ مجھے تیرے بارے میں بنو قریظہ سے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔“ اس آدمی نے اپنا اسلحہ لے لیا، پھر واپس گھر پہنچا تو اس کی بیوی دروازے کے دونوں کواڑوں کے درمیان کھڑی تھی تو اس نے اس کی طرف، اسے مارنے کے لیے نیزہ جھکایا، کیونکہ اسے غیرت آ گئی تھی (کہ یہ باہر کیوں کھڑی ہے) تو اس کی بیوی نے کہا، اپنا نیزہ روکو اور گھر میں داخل ہو کر دیکھو، میں کیوں نکلی ہوں، وہ داخل ہوا تو اس نے ایک بہت بڑا سانپ بستر پر کنڈلی مارے ہوئے پایا، اس نے اس کی طرف نیزہ جھکایا اور اسے اس میں پرو لیا، پھر باہر نکل کر اسے حویلی میں گاڑ دیا، وہ سانپ اس کی طرف لوٹا تو پتہ نہ چل سکا، ان میں سے پہلے کون مرا، سانپ یا نوجوان؟ تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ واقعہ سنایا اور عرض کیا، اللہ سے دعا کیجئے، اللہ اس کو ہماری خاطر زندگی عطا فرما دے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے ساتھی کے لیے بخشش طلب کرو۔“ پھر فرمایا: ”مدینہ میں کچھ جن اسلام لا چکے ہیں، اس لیے جب تم ان میں سے کسی کو دیکھو تو اسے تین دن آگاہ کرو، اگر اس کے بعد پھر تمہارے سامنے آئے تو اسے قتل کر دو، کیونکہ وہ شیطان ہے۔“