16. باب: اگر امیر شرع کے خلاف کوئی کام کرے تو اس کو برا جاننا چاہیئے۔
Chapter: The obligation to denounce rulers for that in which they go against Shari'ah, but they should not be fought so long as they pray regularly, etc
ابن مبارک نے ہشام سے، انہوں نے حسن سے، انہوں نے ضبہ بن محصن سے، انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پھر اسی کے مانند بیان کیا، سوائے ان الفاظ کے: "جس نے پسند کیا اور پیچھے لگا" یہ الفاظ بیان نہیں کیے
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آگے مذکورہ بالا روایت ہے، مگر اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں، (لیکن جو راضی ہو گیا اور پیروی کی)
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4803
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے، اگر حاکم خلاف شریعت کوئی حکم جاری کرے تو اس کو مسترد کرنا چاہیے، اگر اس کو روکنا ممکن ہو تو لوگ مل کر روکیں، وگرنہ زبان سے اس کا انکار کریں، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل سے اس کو بدلنے کی تدابیر سوچیں اور اس کو ناپسندیدہ تصور کریں اور کسی صورت میں اس کام کو قبول نہ کریں، اس صورت میں، وہ مؤاخذہ اور عذاب سے بھی محفوظ رہیں گے اور گناہ سے بھی بچ جائیں گے۔ لیکن اگر وہ ان کاموں پر راضی ہو جائیں گے اور ان کو مان لیں گے، تو گناہ کے مرتکب ہوں گے، مواخذہ اور عذاب سے بچ نہیں سکیں گے، لیکن جب حاکم اسلام کے بنیادی ارکان کی پابندی کریں، تو ان کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے، لیکن آج بدقسمتی سے، دنیوی مفادات کو بنیاد بنا کر حکمرانوں کے خلاف تحریکیں چلائی جاتیں ہیں اور دین کے بنیادی ارکان کو لائق اعتناء نہیں سمجھا جاتا، عوام ہر اس حکمران کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں جو ان کے دنیوی مفادات کا محافظ ہونا چاہیے وہ پانچوں عیوب سے متصف ہو، اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی بیگانہ ہو، فالی الله مشتكی۔