نا يعقوب بن إبراهيم، والحسن بن محمد، وعلي بن الحسين بن إبراهيم بن الحسين، واحمد بن سنان الواسطي، وموسى بن خاقان البغدادي قالوا: حدثنا إسحاق، وهو ابن يوسف الازرق، وهذا حديث الدورقي، نا سفيان الثوري، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل فساله عن وقت الصلوات، فقال: صل معنا، فلما زالت الشمس صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر وقال: وصلى العصر والشمس مرتفعة نقية، وصلى المغرب حين غربت الشمس، وصلى العشاء حين غاب الشفق، وصلى الفجر بغلس، فلما كان من الغد امر بلالا فاذن الظهر فابرد بها، فانعم ان يبرد بها، وامره فاقام العصر والشمس حية، اخر فوق الذي كان، وامره فاقام المغرب قبل ان يغيب الشفق، وامره فاقام العشاء بعدما ذهب ثلث الليل، وامره فاقام الفجر فاسفر بها، ثم قال: «اين السائل عن وقت الصلاة؟» قال: انا يا رسول الله قال: «وقت صلاتكم بين ما رايتم» قال ابو بكر: لم اجد في كتابي عن الزعفراني المغرب في اليوم الثانينا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَالْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحُسَيْنِ، وَأَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْوَاسِطِيُّ، وَمُوسَى بْنُ خَاقَانَ الْبَغْدَادِيُّ قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، وَهُوَ ابْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، وَهَذَا حَدِيثُ الدَّوْرَقِيِّ، نا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَسَأَلَهُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَوَاتِ، فَقَالَ: صَلِّ مَعَنَا، فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَقَالَ: وَصَلَّى الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ نَقِيَّةٌ، وَصَلَّى الْمَغْرِبَ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَصَلَّى الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، وَصَلَّى الْفَجْرَ بِغَلَسٍ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ الظُّهْرَ فَأَبْرَدَ بِهَا، فَأَنْعَمَ أَنْ يُبْرِدَ بِهَا، وَأَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ، أَخَّرَ فَوْقَ الَّذِي كَانَ، وَأَمَرَهُ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ، وَأَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعِشَاءَ بَعْدَمَا ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، وَأَمَرَهُ فَأَقَامَ الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ بِهَا، ثُمَّ قَالَ: «أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ؟» قَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «وَقْتُ صَلَاتِكُمْ بَيْنَ مَا رَأَيْتُمْ» قَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَمْ أَجِدْ فِي كِتَابِي عَنِ الزَّعْفَرَانِيِّ الْمَغْرِبَ فِي الْيَوْمِ الثَّانِي
حضرت سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کہا، ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازوں کے وقت کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے ساتھ نماز پڑھو (تمہیں وقت معلوم ہو جائے گا)“ پھر جب سورج ڈھل گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز ادا کی، اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز ادا کی جبکہ سورج بلند اور صاف و روشن تھا، اور سورج غروب ہونے پر نماز مغرب ادا کی، اور نماز عشاء شفق غائب ہونے پر ادا کی، اور نماز فجر اندھیرے میں ادا کی، پھر جب دوسرا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حٗکم دیا تو اُنہوں نے ظہر کی اذان دی اور اُسے ٹھنڈا کیا تو خوب ٹھنڈا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے حُکم دیا تو اُنہوں نے نمازِ عصر کی اقامت کہی جبکہ سورج زندہ (خوب روشن) تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کل سے زیادہ تاخیر سے ادا کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں حُکم دیا تو اُنہوں نے سرخی غائب ہو نے سے پہلے نماز مغرب کی اقامت کہی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں حُکم دیا تو اُنہوں نے تہائی رات گزر نے پر عشاء کی نما ز قائم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم سے اُنہوں نے نماز فجر کو روشنی میں قائم کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کے وقت کے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے؟“ اُس نے عرض کی کہ میں موجود ہوں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری نمازوں کے اوقات اس کے درمیان ہیں جو تم نے (دو دن میں) دیکھا ہے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب میں زعفرانی سے یہ الفاظ نہیں پائے ”مغرب دوسرے دن میں۔“