مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب الفتن
كتاب الفتن
دجال سے پہلے تین سال بےررکت ہوں گے
حدیث نمبر: 5491
Save to word اعراب
وعن اسماء بنت يزيد قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي فذكر الدجال فقال: إن بين يديه ثلاث سنين سنة تمسلك السماء فيها ثلث قطرها والارض ثلث نباتها. والثانية تمسك السماء ثلثي قطرها والارض ثلثي نباتها. والثالثة تمسك السماء قطرها كله والارض نباتها كله. فلا يبقى ذات ظلف ولا ذات ضرس من البهائم إلا هلك وإن من اشد فتنته انه ياتي الاعرابي فيقول: ارايت إن احييت لك إبلك الست تعلم اني ربك؟ فيقول بلى فيمثل له الشيطان نحو إبله كاحسن ما يكون ضروعا واعظمه اسنمة. قال: وياتي الرجل قد مات اخوه ومات ابوه فيقول: ارايت إن احييت لك اباك واخاك الست تعلم اني ربك؟ فيقول: بلى فيمثل له الشياطين نحو ابيه ونحو اخيه. قالت: ثم خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم لحاجته ثم رجع والقوم في اهتمام وغم مما حدثهم. قالت: فاخذ بلحمتي الباب فقال: «مهيم اسماء؟» قلت: يا رسول الله لقد خلعت افئدتنا بذكر الدجال. قال: «إن يخرج وانا حي فانا حجيجه وإلا فإن ربي خليفتي علىكل مؤمن» فقلت: يا رسول الله والله إنا لنعجن عجيننا فما نخبزه حتى نجوع فكيف بالمؤمنين يومئذ؟ قال: «يجزئهم ما يجزئ اهل السماء من التسبيح والتقديس» . رواه احمد وَعَن أسماءَ بنتِ يزيدَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي فَذَكَرَ الدَّجَّالَ فَقَالَ: إِنَّ بَيْنَ يَدَيْهِ ثَلَاث سِنِين سنة تمسلك السَّمَاءُ فِيهَا ثُلُثَ قَطْرِهَا وَالْأَرْضُ ثُلُثَ نَبَاتِهَا. وَالثَّانِيَةُ تُمْسِكُ السَّمَاءُ ثُلُثَيْ قَطْرِهَا وَالْأَرْضُ ثُلُثَيْ نَبَاتِهَا. وَالثَّالِثَةُ تُمْسِكُ السَّمَاءُ قَطْرَهَا كُلَّهُ وَالْأَرْضُ نَبَاتَهَا كُلَّهُ. فَلَا يَبْقَى ذَاتُ ظِلْفٍ وَلَا ذَاتُ ضِرْسٍ مِنَ الْبَهَائِمِ إِلَّا هَلَكَ وَإِنَّ مِنْ أَشَدِّ فِتْنَتِهِ أَنَّهُ يَأْتِي الْأَعْرَابِيَّ فَيَقُولُ: أَرَأَيْتَ إِنْ أَحْيَيْتُ لَكَ إِبِلَكَ أَلَسْتَ تَعْلَمُ أَنِّي رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ بَلَى فَيُمَثِّلُ لَهُ الشَّيْطَانَ نَحْوَ إِبِلِهِ كَأَحْسَنِ مَا يَكُونُ ضُرُوعًا وَأَعْظَمِهِ أَسْنِمَةً. قَالَ: وَيَأْتِي الرَّجُلَ قَدْ مَاتَ أَخُوهُ وَمَاتَ أَبُوهُ فَيَقُولُ: أَرَأَيْتَ إِنْ أَحْيَيْتُ لَكَ أَبَاكَ وَأَخَاكَ أَلَسْتَ تَعْلَمُ أَنِّي رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: بَلَى فَيُمَثِّلُ لَهُ الشَّيَاطِينَ نَحْوَ أَبِيهِ وَنَحْوَ أَخِيهِ. قَالَتْ: ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ رَجَعَ وَالْقَوْمُ فِي اهْتِمَامٍ وَغَمٍّ مِمَّا حَدَّثَهُمْ. قَالَتْ: فَأَخَذَ بِلَحْمَتَيِ الْبَابِ فَقَالَ: «مَهْيَمْ أَسْمَاءُ؟» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَقَدْ خَلَعْتَ أَفْئِدَتَنَا بِذِكْرِ الدَّجَّالِ. قَالَ: «إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا حَيٌّ فَأَنَا حَجِيجُهُ وَإِلَّا فإِنَّ رَبِّي خليفتي علىكل مُؤْمِنٍ» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ إِنَّا لَنَعْجِنُ عَجِينَنَا فَمَا نَخْبِزُهُ حَتَّى نَجُوعَ فَكَيْفَ بِالْمُؤْمِنِينَ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: «يُجْزِئُهُمْ مَا يُجْزِئُ أَهْلَ السماءِ من التسبيحِ والتقديسِ» . رَوَاهُ أَحْمد
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے گھر میں تھے، آپ نے دجال کا ذکر کیا تو فرمایا: اس سے پہلے تین قسم کے قحط ہوں گے، ایک قحط یہ ہو گا کہ اس میں آسمان تہائی بارش روک لے گا، زمین اپنی تہائی نباتات روک لے گی، دوسرے میں یہ ہو گا کہ آسمان اپنی دو تہائی بارش روک لے گا، زمین اپنی دو تہائی نباتات روک لے گی، اور تیسرے میں آسمان اپنی ساری بارش روک لے گا، اور زمین اپنی تمام نباتات روک لے گی چوپاؤں میں سے کوئی کھر والا باقی بچے گا نہ کوئی کچلی والا، سب ہلاک ہو جائیں گے، اس کا سب سے شدید فتنہ یہ ہو گا کہ وہ اعرابی کے پاس آئے گا تو کہے گا، مجھے بتاؤ اگر میں تمہارے اونٹ کو زندہ کر دوں تو کیا تجھے یقین نہیں آئے گا کہ میں تمہارا رب ہوں؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں، شیطان اس کے لیے اس کے اونٹ کی صورت اختیار کر لے گا، تو اس کے تھن بہترین ہو جائیں گے اور اس کی کوہان بہت بڑی ہو جائے گی۔ فرمایا: وہ (دجال) دوسرے آدمی کے پاس آئے گا جس کا بھائی اور والد وفات پا چکے ہوں گے، تو وہ (اسے) کہے گا، مجھے بتاؤ اگر میں تمہارے لیے تمہارے والد اور تمہارے بھائی کو زندہ کر دوں تو کیا تجھے یقین نہیں ہو گا کہ میں تمہارا رب ہوں؟ وہ کہے گا، کیوں نہیں، شیطان اس کے لیے اس کے والد اور اس کے بھائی کی صورت اختیار کر لے گا۔ اسماء رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی کسی ضرورت کی خاطر تشریف لے گئے، پھر واپس آ گئے، اور لوگ آپ کے بیان کردہ فرمان میں فکر و غم کی کیفیت میں تھے، بیان کرتی ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دروازے کی دہلیز پکڑ کر فرمایا: اسماء کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ نے دجال کے ذکر سے ہمارے دل نکال کر رکھ دیے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر وہ میری زندگی میں نکل آیا تو میں اس کا مقابلہ کروں گا، ورنہ میرا رب ہر مومن پر میرا خلیفہ ہے۔ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم اپنا آٹا گوندھتی ہیں اور روٹی پکا کر ابھی فارغ بھی نہیں ہوتیں کہ پھر بھوک لگ جاتی ہے، تو اس روز مومنوں کی کیا حالت ہو گی؟ فرمایا: تسبیح و تقدیس جو آسمان والوں کے لیے کافی ہوتی ہے وہی ان کے لیے کافی ہو گی۔ حسن، رواہ احمد۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«حسن، رواه أحمد (6/ 453. 454 ح 28120) [و الطبراني (24/ 158 ح 405 وسنده حسن. 161)]
٭ انظر النھاية في الفتن و الملاحم (ح 263 بتحقيقي) لمزيد التحقيق.
٭ قلت: قتادة لم ينفرد به، بل تابعه ثابت و حجاج بن الأسود و عبد العزيز بن صھيب به. فالحديث حسن.»

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.