كتاب الصيام کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل 70. بَابُ: صَوْمِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم - بِأَبِي هُوَ وَأُمِّي - وَذِكْرِ اخْتِلاَفِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ فِي ذَلِكَ باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم (میرے باپ ماں آپ پر فدا ہوں) کا روزہ اور اس سلسلہ میں ناقلین حدیث کے اختلاف کا ذکر۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضر میں ہوں یا سفر میں ایام بیض میں بغیر روزہ کے نہیں رہتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 5470) (حسن) (سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی 580، وتراجع الالبانی 404)»
وضاحت: ۱؎: قمری مہینہ کی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں تاریخ کو ایام بیض (روشن راتوں والے دن) کہا جاتا ہے، کیونکہ ان راتوں میں چاند ڈوبنے کے وقت سے لے کر صبح تک پوری رات رہتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے: آپ روزے رکھنا بند نہیں کریں گے، اور آپ بغیر روزے کے رہتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ روزے رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اور آپ جب سے مدینہ آئے رمضان کے علاوہ آپ نے کسی بھی مہینہ کے مسلسل روزے نہیں رکھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم53 (1971)، صحیح مسلم/الصوم34 (1157)، سنن الترمذی/الشمائل42 (283)، سنن ابن ماجہ/الصوم30 (1711)، (تحفة الأشراف: 5447)، مسند احمد 1/227، 231، 241، 271، 301، 321 سنن الدارمی/الصوم36 (1784) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے رہتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے: آپ بغیر روزہ کے رہیں گے ہی نہیں، اور بغیر روزہ کے رہتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 17602) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نہیں جانتی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو، اور نہ ہی میں یہ جانتی ہوں کہ آپ نے کبھی پوری رات صبح تک قیام کیا ہو، اور نہ ہی میں یہ جانتی ہوں کہ رمضان کے علاوہ آپ نے کبھی کوئی پورا مہینہ روزہ رکھا ہو۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1632 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ روزہ رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ (برابر) روزہ ہی رکھا کریں گے، اور آپ افطار کرتے (روزہ نہ رہتے) تو ہم کہتے کہ آپ برابر بغیر روزہ کے رہیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ آنے کے بعد سوائے رمضان کے کبھی کوئی پورا مہینہ روزہ نہیں رکھا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 34 (1156)، سنن الترمذی/الصوم 57 (768)، (تحفة الأشراف: 16202) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک روزہ رکھنے کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ مہینہ شعبان کا تھا، بلکہ آپ اسے رمضان سے ملا دیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصوم 56 (2431)، (تحفة الأشراف: 6280)، مسند احمد 6/188 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے رہتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ بغیر روزے کے نہیں رہیں گے، اور بغیر روزہ کے رہتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں، اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی اور مہینے میں روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 52 (1969)، صحیح مسلم/الصیام 34 (1156)، سنن ابی داود/الصیام 59 (2434)، (تحفة الأشراف: 17710)، موطا امام مالک/الصوم 2 (56)، مسند احمد 6/101، 153، 242 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوائے شعبان اور رمضان کے مسلسل دو مہینے روزہ نہیں رکھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2177 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سال کے کسی بھی مہینہ میں پورا روزہ نہیں رکھتے تھے سوائے شعبان کے، آپ اسے رمضان سے ملا دیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2178 (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزہ نہیں رکھتے تھے، آپ شعبان کے پورے یا اکثر دن روزہ رہتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 17750) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان روزہ رکھتے تھے سوائے چند دنوں کے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 17778) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان روزہ رکھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 16051) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جتنا میں آپ کو شعبان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں اتنا کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا، آپ نے فرمایا: ”رجب و رمضان کے درمیان یہ ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غفلت برتتے ہیں، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل پیش ہو تو میں روزہ سے رہوں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 120)، مسند احمد 5/201 (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ روزہ رکھتے ہیں یہاں تک کہ ایسا لگتا ہے کہ آپ روزہ بند ہی نہیں کریں گے، اور بغیر روزہ کے رہتے ہیں یہاں تک کہ لگتا ہے کہ روزہ رکھیں گے ہی نہیں سوائے دو دن کے۔ کہ اگر وہ آپ کے روزہ کے درمیان میں آ گئے (تو ٹھیک ہے) اور اگر نہیں آئے تو بھی آپ ان میں روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے پوچھا: ”وہ دو دن کون ہیں؟“ میں نے عرض کیا: وہ پیر اور جمعرات کے دن ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دو دن وہ ہیں جن میں اللہ رب العالمین کے سامنے ہر ایک کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل پیش ہو تو میں روزہ سے رہوں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 119)، مسند احمد 5/201، 206، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصوم60 (2436)، سنن الدارمی/الصوم41 (1791) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر روزہ رکھتے جاتے تھے، یہاں تک کہ کہا جانے لگتا کہ آپ بغیر روزہ کے رہیں گے ہی نہیں، اور (مسلسل) بغیر روزہ کے رہتے یہاں تک کہ کہا جانے لگتا کہ آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 124)، مسند احمد 5/201 (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو شنبہ (پیر) اور جمعرات کے روزہ کا اہتمام فرماتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 16052) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ (پیر) اور جمعرات کے دن (کے روزہ) کا اہتمام فرماتے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2189 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ (پیر) اور جمعرات کے دن (کے روزہ) کا اہتمام فرماتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 16056)، مسند احمد 6/80، 106 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ (پیر) اور جمعرات کے دن (کے روزہ) کا اہتمام فرماتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 16063) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ (پیر) اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 16140) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے تین دن روزہ رکھتے تھے: پہلے ہفتہ کے دوشنبہ (پیر) اور جمعرات کو، اور دوسرے ہفتہ کے دوشنبہ (پیر) کو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 18161) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن لكن الأصح بلفظ وخميس
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے کی جمعرات اور دوشنبہ (پیر) کو اور دوسرے ہفتہ کے دوشنبہ (پیر) کو روزہ رہتے تھے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصوم 69 (2451)، (تحفة الأشراف: 15796)، مسند احمد 6/287 (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر لیٹتے تو اپنی داہنی ہتھیلی اپنے دائیں گال کے نیچے رکھ لیتے، اور دوشنبہ (پیر) اور جمعرات کے دن روزہ رکھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 15811) حم6/287 (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے کے ابتدائی تین دنوں میں روزہ رکھتے تھے اور کم ہی ایسا ہوتا کہ آپ جمعہ کے دن روزہ سے نہ رہے ہوں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصوم68 (2450)، سنن الترمذی/الصوم41 (742)، سنن ابن ماجہ/الصوم37 (1725) مختصرا (تحفة الأشراف: 9206)، مسند احمد 1/406 (حسن)»
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری کی ایک حدیث (صوم/۱۹۸۴) میں خاص جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے صراحت کے ساتھ ممانعت آئی ہے، تو اس حدیث کا مطلب بقول حافظ ابن حجر یہ ہے کہ اگر ان تین ایام بیض میں جمعہ آ پڑتا تو جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت کے وجہ سے آپ روزہ نہیں توڑتے تھے، بلکہ رکھ لیتے تھے، ممانعت تو خاص ایک دن جمعہ کو روزہ رکھنے کی ہے، یا بقول حافظ عینی: ایک دن آگے یا پیچھے ملا کر جمعہ کو روزہ رکھتے تھے، لیکن قابل قبول توجیہ حافظ ابن حجر کی ہی ہے، کیونکہ آپ تین دن ایام بیض کے روزہ تو رکھتے ہی تھے، اور پھر دو دن جمعہ کی مناسبت سے بھی رکھتے ہوں، یہ کہیں منقول نہیں ہے، یا پھر یہ کہا جائے کہ خاص اکیلے جمعہ کے دن کی ممانعت امت کے لیے ہے، اور روزہ رکھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی۔ قال الشيخ الألباني: حسن
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چاشت کی دونوں رکعتوں کا حکم دیا، اور یہ کہ میں وتر پڑھے بغیر نہ سوؤں، اور ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کروں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 12190)، مسند احمد 2/331 ویأتي عند المؤلف بأرقام: 2407، 2408، 2409) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان سے عاشوراء کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو انہوں نے کہا: مجھے نہیں معلوم کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دن کا روزہ اور دنوں سے بہتر جان کے رکھا ہو، سوائے اس دن کے، یعنی ماہ رمضان کے اور عاشوراء کے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم69 (2006)، صحیح مسلم/الصوم19 (1132)، (تحفة الأشراف: 5866)، مسند احمد 1/213، 222، 367 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو عاشوراء کے دن منبر پر کہتے سنا: ”اے مدینہ والو! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن میں کہتے ہوئے سنا کہ میں روزہ سے ہوں تو جو روزہ رکھنا چاہے وہ رکھے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم69 (2003)، صحیح مسلم/الصوم19 (1125)، (تحفة الأشراف: 11408)، موطا امام مالک/الصوم11 (34)، مسند احمد 4/95، 97 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ (ام المؤمنین رضی الله عنہا) کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کے روز، ذی الحجہ کے نو دنوں میں، ہر مہینے کے تین دنوں میں یعنی: مہینہ کے پہلے دوشنبہ (پیر) کو اور پہلے اور دوسرے جمعرات کو روزہ رکھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصوم61 (2437)، (تحفة الأشراف: 18297)، مسند احمد 5/271، 6/288، 289، 310، 423، یأتی عند المؤلف فی باب83 بأرقام: 2419، 2420، 2421 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|