Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
70. بَابُ : صَوْمِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم - بِأَبِي هُوَ وَأُمِّي - وَذِكْرِ اخْتِلاَفِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ فِي ذَلِكَ
باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم (میرے باپ ماں آپ پر فدا ہوں) کا روزہ اور اس سلسلہ میں ناقلین حدیث کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2373
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ! أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي هَذَا الْيَوْمِ:" إِنِّي صَائِمٌ فَمَنْ شَاءَ أَنْ يَصُومَ فَلْيَصُمْ".
حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو عاشوراء کے دن منبر پر کہتے سنا: اے مدینہ والو! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن میں کہتے ہوئے سنا کہ میں روزہ سے ہوں تو جو روزہ رکھنا چاہے وہ رکھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم69 (2003)، صحیح مسلم/الصوم19 (1125)، (تحفة الأشراف: 11408)، موطا امام مالک/الصوم11 (34)، مسند احمد 4/95، 97 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

سنن نسائی کی حدیث نمبر 2373 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2373  
اردو حاشہ:
امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ بتلانا ہے کہ رسول اللہﷺ عاشوراء کا روزہ بھی رکھا کرتے تھے، مگر عاشوراء کا اکیلا روزہ مناسب نہیں، اس کے ساتھ نویں یا نویں کا چھوٹ جائے تو مشابہت سے بچنے کی خاطر گیارہویں کا رکھنا بھی ان شاء اللہ جائز ہوگا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2373   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2003  
2003. حضرت حمید بن عبدالرحمان سے روایت ہے انھوں نے حضرت امیر معاویہ ؓ کو عاشوراء کے دن، جس سال انھوں نے حج کیا، منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: اے اہل مدینہ!تمہارے علماء کہاں گئے؟ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: یہ عاشوراء کا دن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اس دن کا روزہ فرض نہیں کیا۔ البتہ میں روزے سے ہوں، اس لیے جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے، اسے چھوڑ دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2003]
حدیث حاشیہ:
شاید معاویہ ؓ کو یہ خبر پہنچی ہو کہ مدینہ والے عاشوراءکا روزہ مکروہ جانتے ہیں یا اس کا اہتمام نہیں کرتے یا اس کو فرض سمجھتے ہیں، تو آپ نے منبر پر یہ تقریر کی، آپ نے یہ حج 44ھ میں کیا تھا۔
یہ ان کی خلافت کا پہلا حج تھا۔
اور اخیر حج ان کا 57ھ میں ہوا تھا۔
حافظ کے خیال کے مطابق یہ تقریر ان کے آخری حج میں تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2003