كتاب الصيام کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل 63. بَابُ: تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ} باب: آیت کریمہ: ”جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہوں (اور وہ روزہ نہ رکھنا چاہیں) تو ان کا فدیہ یہ ہے کہ کسی مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلائیں“ کی تفسیر۔
سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ: «وعلى الذين يطيقونه فدية طعام مسكين» ”جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں (اور وہ روزہ نہ رکھنا چاہیں) تو ان کا فدیہ یہ ہے کہ کسی مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلائیں“ (البقرہ: ۱۸۴) نازل ہوئی تو ہم میں سے جو شخص چاہتا کہ وہ افطار کرے (کھائے پئے) اور فدیہ دیدے (تو وہ ایسا کر لیتا) یہاں کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی تو اس نے اسے منسوخ کر دیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر البقرة 26 (4507)، صحیح مسلم/الصوم25 (1155)، سنن ابی داود/الصوم2 (2315)، سنن الترمذی/الصوم75 (798)، (تحفة الأشراف: 4534)، سنن الدارمی/الصوم29 (1775) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بعد والی آیت سے مراد سورۃ البقرہ کی یہ آیت ہے «فمن شہد منکم الشھر فلیصمہ» یعنی ”تم میں سے جو بھی آدمی رمضان کا مہینہ پائے وہ روزہ رکھے“۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ: «وعلى الذين يطيقونه» میں «يطيقونه» کی تفسیر میں کہتے ہیں معنی یہ ہے کہ جو لوگ روزہ رکھنے کے مکلف ہیں، (تو ہر روزہ کے بدلے) ان پر ایک مسکین کے (دونوں وقت کے) کھانے کا فدیہ ہے، (اور جو شخص ازراہ ثواب و نیکی و بھلائی) ایک سے زیادہ مسکین کو کھانا دے دیں تو یہ منسوخ نہیں ہے، (یہ اچھی بات ہے، اور زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ روزہ ہی رکھے جائیں) یہ رخصت صرف اس شخص کے لیے ہے جو روزہ کی طاقت نہ رکھتا ہو، یا بیمار ہو اور اچھا نہ ہو پا رہا ہو۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیرالبقرة25 (4505)، (تحفة الأشراف: 5945)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصوم3 (2318) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|