كتاب الصيام کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل 5. بَابُ: ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى مَعْمَرٍ فِيهِ باب: اس حدیث میں معمر پر (راویوں کے) اختلاف کا ذکر۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عزیمت و تاکید بغیر واجب کئے قیام رمضان کی ترغیب دیتے تھے، اور فرماتے تھے: ”جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور اس میں شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں“۔ ابن مبارک نے اسے مرسلاً (منقطعاً) روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 25 (759)، سنن ابی داود/الصلاة 318 (1371)، سنن الترمذی/الصوم 83 (808)، (تحفة الأشراف: 15270)، مسند احمد 2/281، ویأتي عند المؤلف برقم: 2200، لکن عندھم الجزء الأخیر ’’من قام رمضان إیمانا الخ بدل ’’إذا دخل رمضان الخ‘‘ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رمضان آتا ہے تو رحمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 14604) (صحیح) (سند میں زہری اور ابوہریرہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے پاس آ چکا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کر دیئے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور سرکش شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، اور اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس کے خیر سے محروم رہا تو وہ بس محروم ہی رہا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد النسائي، (تحفة الأشراف: 13564)، مسند احمد 2/230، 385، 425 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عرفجہ کہتے ہیں کہ ہم نے عتبہ بن فرقد کی عیادت کی تو ہم نے ماہ رمضان کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے پوچھا: تم لوگ کیا ذکر کر رہے ہو؟ ہم نے کہا: ماہ رمضان کا، تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، اور ہر رات منادی آواز لگاتا ہے: اے خیر (بھلائی) کے طلب گار! خیر کے کام میں لگ جا ۱؎، اور اے شر (برائی) کے طلب گار! برائی سے باز آ جا“ ۲؎۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں: یہ غلط ہے ۳؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 9758)، مسند احمد 4/311، 312، 5/411 (صحیح) (آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ یہی اس کا وقت ہے کیونکہ اس وقت معمولی عمل پر بہت زیادہ ثواب دیا جاتا ہے۔ ۲؎: اور توبہ کر لے کیونکہ یہی توبہ کا وقت ہے۔ ۳؎: غلط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس روایت میں ہے کہ عرفجہ نے اسے عتبہ بن فرقد رضی الله عنہ کی روایت بنا دیا ہے، جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کسی اور صحابی سے مروی ہے، جیسا کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
عرفجہ کہتے ہیں: میں ایک گھر میں تھا جس میں عتبہ بن فرقد بھی تھے، میں نے ایک حدیث بیان کرنی چاہی حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک (صاحب وہاں) موجود تھے گویا وہ حدیث بیان کرنے کا مجھ سے زیادہ مستحق تھے، چنانچہ (انہوں) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، اور ہر سرکش شیطان کو بیڑی لگا دی جاتی ہے، اور پکارنے والا ہر رات پکارتا ہے: اے خیر (بھلائی) کے طلب گار! نیکی میں لگا رہ، اور اے شر (برائی) کے طلب گار! باز آ جا“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
|