صفة الوضوء ابواب: وضو کا طریقہ 110. بَابُ: حِلْيَةِ الْوُضُوءِ باب: وضو کے زیور کا بیان۔
ابوحازم کہتے ہیں کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے تھا، اور وہ نماز کے لیے وضو کر رہے تھے، وہ اپنے دونوں ہاتھ دھو رہے تھے یہاں تک کہ وہ اپنے دونوں بغلوں تک پہنچ جاتے تھے، تو میں نے کہا: ابوہریرہ! یہ کون سا وضو ہے؟ انہوں نے مجھ سے کہا: اے بنی فروخ! تم لوگ یہاں ہو! ۱؎ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم لوگ یہاں ہو تو میں یہ وضو نہیں کرتا ۲؎، میں نے اپنے خلیل (گہرے دوست) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ جنت میں ”مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو پہنچے گا“ ۳؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 13 (250)، (تحفة الأشراف: 13398)، مسند احمد 2/371 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: فروخ ابراہیم علیہ السلام کے لڑکے کا نام تھا جو اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام کے بعد پیدا ہوئے، ان کی نسل بہت بڑھی، کہا جاتا ہے کہ عجمی انہیں کی اولاد میں سے ہیں، قاضی عیاض کہتے ہیں، فروخ سے ابوہریرہ کی مراد موالی ہیں اور یہ خطاب ابوحازم کی طرف ہے۔ ۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ عوام کے سامنے ایسا نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ اندیشہ ہے کہ وہ اسے فرض سمجھنے لگ جائیں، اس لیے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات کہی کہ اگر میں جانتا کہ تم لوگ یہاں موجود ہو تو اس طرح وضو نہ کرتا۔ ۳؎: اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز مومن کے اعضاء وضو میں زیور پہنائے جائیں گے، تو جو کامل وضو کرے گا اس کے زیور بھی کامل ہوں گے، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن مسلمان کو زیور اس حد تک پہنایا جائے گا جہاں تک وضو میں پانی پہنچتا ہے یعنی ہاتھوں کا زیور کہنیوں تک، پاؤں کا ٹخنوں تک، اور منہ کا کانوں تک ہو گا۔ «واللہ اعلم» قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان کی طرف نکلے اور آپ نے فرمایا: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون» ”مومن قوم کی بستی والو! تم پر سلامتی ہو، اللہ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں“ میری خواہش ہے کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھوں“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم لوگ آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے صحابہ (ساتھی) ہو، میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی (دنیا میں) نہیں آئے، اور میں حوض پر ان کا پیش رو ہوں گا“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو جو بعد میں آئیں گے کیسے پہچانیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے؟ اگر کسی آدمی کا سفید چہرے اور پاؤں والا گھوڑا سیاہ گھوڑوں کے درمیان ہو تو کیا وہ اپنا گھوڑا نہیں پہچان لے گا؟“ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ قیامت کے دن (میدان حشر میں) اس حال میں آئیں گے کہ وضو کی وجہ سے ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں چمک رہے ہوں گے، اور میں حوض پر ان کا پیش رو ہوں گا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 12 (249) مطولاً، سنن ابی داود/الجنائز 83 (3237)، سنن ابن ماجہ/ الزھد 36 (4306)، (تحفة الأشراف: 14086)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 6 (28)، مسند احمد 2/300، 375، 408 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: پیش روسے مراد ”میر سامان“ ہے جو قافلے میں سب سے پہلے آگے جا کر قافلے کے ٹھہرنے اور ان کی دیگر ضروریات کا انتظام کرتا ہے، یہ امت محمدیہ کا شرف ہے کہ ان کے پیش رو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|