Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
صفة الوضوء
ابواب: وضو کا طریقہ
110. بَابُ : حِلْيَةِ الْوُضُوءِ
باب: وضو کے زیور کا بیان۔
حدیث نمبر: 150
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الْمَقْبُرَةِ، فَقَالَ:" السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، وَدِدْتُ أَنِّي قَدْ رَأَيْتُ إِخْوَانَنَا؟" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَسْنَا إِخْوَانَكَ؟ قَالَ:" بَلْ أَنْتُمْ أَصْحَابِي، وَإِخْوَانِي الَّذِينَ لَمْ يَأْتُوا بَعْدُ وَأَنَا فَرَطُهُمْ عَلَى الْحَوْضِ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَعْرِفُ مَنْ يَأْتِي بَعْدَكَ مِنْ أُمَّتِكَ؟ قَالَ:" أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ لِرَجُلٍ خَيْلٌ غُرٌّ مُحَجَّلَةٌ فِي خَيْلٍ بُهْمٍ دُهْمٍ، أَلَا يَعْرِفُ خَيْلَهُ؟" قَالُوا: بَلَى، قَالَ:" فَإِنَّهُمْ يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنَ الْوُضُوءِ وَأَنَا فَرَطُهُمْ عَلَى الْحَوْضِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان کی طرف نکلے اور آپ نے فرمایا: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون» مومن قوم کی بستی والو! تم پر سلامتی ہو، اللہ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں میری خواہش ہے کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھوں، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم لوگ آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے صحابہ (ساتھی) ہو، میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی (دنیا میں) نہیں آئے، اور میں حوض پر ان کا پیش رو ہوں گا، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو جو بعد میں آئیں گے کیسے پہچانیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے؟ اگر کسی آدمی کا سفید چہرے اور پاؤں والا گھوڑا سیاہ گھوڑوں کے درمیان ہو تو کیا وہ اپنا گھوڑا نہیں پہچان لے گا؟ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ قیامت کے دن (میدان حشر میں) اس حال میں آئیں گے کہ وضو کی وجہ سے ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں چمک رہے ہوں گے، اور میں حوض پر ان کا پیش رو ہوں گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 12 (249) مطولاً، سنن ابی داود/الجنائز 83 (3237)، سنن ابن ماجہ/ الزھد 36 (4306)، (تحفة الأشراف: 14086)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 6 (28)، مسند احمد 2/300، 375، 408 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: پیش روسے مراد میر سامان ہے جو قافلے میں سب سے پہلے آگے جا کر قافلے کے ٹھہرنے اور ان کی دیگر ضروریات کا انتظام کرتا ہے، یہ امت محمدیہ کا شرف ہے کہ ان کے پیش رو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن نسائی کی حدیث نمبر 150 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 150  
150۔ اردو حاشیہ:
پیش رو سے مراد وہ شخص ہے جو قافلے سے پہلے آگے جا کر ان کے پڑاؤ اور دوسری ضروریات کا انتظام کرتا ہے۔
➋ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا مرتبہ آپ کے بھائیوں سے بلند ہے کیونکہ بھائی تو سب امتی ہیں اور صحابہ صرف آپ کے فیض یافتہ۔
➌ یہ حدیث مسنون طریقے سے قبروں کی زیارت کرنے کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل قبور کو سلام کہنا اور ان کے لیے دعا کرنا مسنون عمل ہے۔
➍ نیک لوگوں سے ملاقات کی خواہش کرنا اور ان کی خوبیاں بیان کرنا درست ہے۔
➎ اس حدیث سے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ و السلام کی فضیلت بھی واضح ہوتی ہے اور حوض کوثر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیش رو ہوں گے۔ سبحان اللہ! اس امت کو یہ شرف و فضل مبارک ہو جن کے پیش رو امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 150   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 14  
´قبروں کی زیارت سے ممانعت منسوخ ہے`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى المقبرة فقال: السلام عليكم دار قوم مؤمنين. وإنا إن شاء الله بكم لاحقون . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان کی طرف تشریف لے گئے اور فرمایا: السلام علیکم (تم پر سلام ہو) اے ایمان والوں کا گھر! اور ہم ان شاءاللہ تم سے ملنے والے ہیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 14]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 249، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ سفر کے بغیر قبروں کی زیارت اور قبرستان کو جانا مباح ہے تا کہ مرنے والوں کے لئے دعا کی جائے اور موت کو یاد کیا جائے۔ یاد رہے کہ قبروں کی زیارت سے ممانعت منسوخ ہے۔
➋ عورتوں کے لئے بھی اپنے قریبی رشتہ داروں مثلا بھائی وغیرہ کی قبر کی زیارت جائز ہے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ مثلاً دیکھئے: [صحيح بخاري 1383، صحيح مسلم 974، دار السلام: 2256]
◄ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی قبر پرگئی تھیں۔ [ديكهئے المستدرك للحاكم 376/1 ح 1392، وسنده صحيح و صححه الذهبي]
◈ لیکن یادر ہے کہ غیر لوگوں مثلاً عوام میں مشہور بزرگوں کی قبر پر عورتوں کا جانا ممنوع ہے۔ دیکھئے: [سنن ابي داود 3123 وسنده حسن]
◈ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں پر لعنت بھیجی ہے جو کثرت سے قبروں کی زیارت کرتی ہیں۔ دیکھئے: [سنن ابن ماجه 1576، وسنده حسن] اور [سنن الترمذي 1056، وقال: حسن صحیح]
➌ السلام علیکم دعا ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میت سنتی ہے کیونکہ جو شخص سلام سن لے تو اس پر جواب دینا واجب ہے اور کسی حدیث میں نہیں آیا کہ مردہ بھی سلام کا جواب دیتا ہے۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بعد میں آنے والے مومن و صالح امتوں کو بھائی کہنا آپ کی طرف سے محبت اور شفقت کا عظیم اظہار ہے ورنہ نبی و رسول تو امتیوں کا امام محبوب راہنما اور مطاع ہوتا ہے نہ کہ صرف بڑا بھائی (!) اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں۔
◈ سلف صالحین سے یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ یہ کہتے پھرتے تھے کہ اللہ کے رسول ہمارے بڑے بھائی ہیں اور بڑے بھائی کی طرح ان کا احترام کرنا چاہئے۔
➎حوض کوثر برحق ہے جس سے بدعتیوں اور ظالموں کو دور ہٹایا جائے گا۔
➏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اپنے امتیوں کو وضو کے اعضاء چمکنے کی وجہ سے پہچان لیں گے۔ مثلاً دیکھئے: [تمهيد 261/20، 262 وسندہ حسن]
➐ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں تھے بلکہ عالم الغیب صرف ایک اللہ ہے۔
➑ سخت بدعات، گمراہیوں، کفر اور دور ظلم میں کتاب و سنت پرعمل کرنا بہت بڑی فضیلت والا کام ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 133   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3237  
´قبروں کی زیارت کے وقت یا وہاں سے گزرتے وقت کی دعا کا بیان؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان گئے تو فرمایا: «‏‏‏‏السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون» سلامتی ہو تم پر اے مومن قوم کی بستی والو! ہم بھی ان شاءاللہ آ کر آپ لوگوں سے ملنے والے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3237]
فوائد ومسائل:

اہل قبور اپنے مسلمان بھایئوں کی دعائوں کے بہت زیادہ محتاج ہیں۔
ان کے لئے خلوص سے دعا کرنا ان کا حق ہے۔
نہ کہ ان سے دعایئں کروانا۔
یا ان سے حاجت روائی مشکل کشائی کی درخواست کرنا۔

مذکورہ دعا کے علاوہ بھی زیارت قبور کی دعایئں صحیح احادیث میں وارد ہیں۔
جیسے صحیح مسلم میں ہے۔
السلام عليكم اهل الديار من المومنين والمسلمين وانا ان شائ الله للاحقون اسال الله لمنا ولكم العافية)(صحیح مسلم۔
الجنائز۔
حدیث 975)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3237   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4306  
´حوض کوثر کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں آئے، اور قبر والوں کو سلام کرتے ہوئے فرمایا: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء الله تعالى بكم لاحقون» اے مومن قوم کے گھر والو! آپ پر سلامتی ہو، ان شاءاللہ ہم آپ لوگوں سے جلد ہی ملنے والے ہیں، پھر فرمایا: میری آرزو ہے کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھوں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ فرمایا: تم سب میرے اصحاب ہو، میرے بھائی وہ ہیں جو میرے بعد آئیں گے، اور میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ کے رسو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4306]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
 
(1)
  قبرستان میں جاکر مسلمانوں کی قبروں کی زیارت کرنی چاہیے۔

(2)
قبروں کی زیارت کا مقصد فوت شدہ افراد کے لیے دعائے مغفرت کرنا اور موت کی یاد ہے ان سے مانگنا مقصد نہیں۔

(3)
السلام و علیکم کہنے کا مقصد انھیں سنانا نہیں بلکہ ان کےلیے سلامتی کی دعا کرنا ہے مخاطب (تم)
کا لفظ بولنے کا مقصد اپنے دل کو نصیحت کرنا ہے کہ یہ لوگ کل تک ہمارے اندر موجود تھے۔
اور ہم سے بات چیت کرتے تھے اور آج یہ ہماری دعاوں کے محتاج ہے۔

(4)
موحد امتی نبی کے دینی بھائی ہیں کیونکہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔
لیکن بھائی ہونے سے درجات میں برابری لازم نہیں آتی۔
جس طرح یعقوب ؑ  کے بیٹے آپس میں بھائی بھائی تھے لیکن جو درجہ حضرت یوسف ؑ کو حاصل ہوا وہ درجہ ان کے کسی بھائی کو حاصل نہ ہوا۔

(5)
نبی امتیوں کو وضو کی علامت سے پہچانیں گے۔
اس لیے نہیں کہ وہ امتیوں کے تمام اعمال کو دیکھ رہے ہیں۔

(6)
پیش رو قافلے کے اس شخص کو کہتے ھیں جو قافلے کے دوسرے افراد سے پہلے پڑاو پہ پہنچ کر ساتھیوں کے وہاں ٹھرنے اور ان کی ضروریات مہیا کرنے کا بندوبست کرتا ہے۔
حدیث کا مطلب یہ ھے کہ جب تم قیامت کے دن قبروں سے اٹھو گےتو میں تم سے پہلے حوض پہ پہنچ چکا ھونگا۔
تاکہ جب تم پہنچو تو تمھیں حوض کوثر کا پانی پلاؤں۔

(7)
حوض کوثر سے پانی پینے کے مستحق وہی لوگ ہونگے جو اسلام پر قائم رہے اور اسلام کی حالت میں فوت ہوئے۔

(8)
اونٹ بہت زیادہ پانی پیتا ہے اور عرب میں پانی کم ہوتا تھا اس لیے لوگ اپنے اونٹوں کے لیے حوض تیار کرتے تھے اور انھیں پانی سے بھرتے تھے تاکہ اونٹ پیاسے نہ رہیں۔
اسی لیے دوسروں کے اونٹوں کو پانی نہیں پینے دیتے تھے۔
اہل بدعت یا مرتد کواسی طرح حوض کوثر سے پانی پینے سے روک دیا جائے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4306   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 584  
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ قبرستان میں پہنچے اور فرمایا: اے مومنوں کے گروہ! تم پر سلامتی ہو اور ہم بھی ان شاء اللہ تمھارے ساتھ ملنے والے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ہم نے اپنے بھائیوں کو دیکھا ہوتا۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: تم میرے ساتھی ہو اور ہمارے بھائی، وہ لوگ ہیں جو ابھی تک دنیا میں نہیں آئے۔ تو انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! آپ کی امت کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:584]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
دُهْمٌ بُهْمٌ:
خالص سیاہ۔
دُهْمٌ:
"أَدْهَمٌ" کی جمع ہے،
سیاہ کو کہتے ہیں،
اور بُهْمٌ:
بهيم کی جمع ہے،
یک رنگ،
سیاہ گھوڑے کو "فَرَسٌ بهيمٌ" کہتے ہیں۔
(2)
فَرَطٌ:
پانی کی طرف لوگوں سے پہلے پہنچنے والا،
اس میں واحد جمع برابر ہیں۔
رَجُلٌ فَرَطٌ،
قَوْمٌ فَرَطٌ۔
"هَلُمَّ" آؤ! مذکر،
مونث اور مفرد تثنیہ جمع سب کے لیے ہے۔
(3)
سُحْقًا سُحْقًا:
بُعْدًا بُعْدًا یعنی:
"سحقهم الله سحقا" اللہ ان کو دور رکھے۔
فوائد ومسائل:
(1)
آپ نے بعد والے امتیوں کو دیکھنے کی خواہش کی اس پر کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا،
کہ خواہ مخواہ تاویل کی ضرورت پیش آئے جیسا کہ بعض عربی اور اردو شارحین نے تکلفات سے کام لیا ہے۔
آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حفاظت وصیانت کے باوجود شہادت فی سبیل اللہ کی خواہش کا اظہا ر فرمایا،
حالانکہ آپ کو کوئی دشمن شہید نہیں کر سکتا تھا،
مقصود شہادت کی فضیلت اور اور رفعت کا اظہار تھا۔
اس طرح دیکھنے کی خواہش کا مطلوب صرف اپنی امت سے محبت وپیار کا اظہار ہے،
جو لوگ ابھی دنیا میں آئے ہی نہیں ان کو دیکھا کیسے جا سکتا ہے۔
(2)
السلام علیکم! ایک دعائیہ جملہ ہے،
کہ اللہ تعالیٰ تمہیں امن وسلامتی بخشے! یہ خطاب نہیں ہے،
جس کے لیے مردے کو جواب دینے کی ضرورت پیش آئے۔
ایسے امور کے لیے ضعیف احادیث سے استدلال کرنا درست نہیں ہے،
کیونکہ یہ کلمات تو قبرستان میں داخل ہوتے وقت کہے جاتے ہیں،
قبر پر جاکر نہیں کہے جاتے۔
اور چونکہ انسان کو اپنی موت کا پتہ نہیں کب آئے گی،
اس لیے اس دعا میں ان شاء اللہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں،
اگرچہ موت ایک اٹل اوریقینی چیز ہے،
ان شاء اللہ کے الفاظ اس کی قطعیت اوریقینی ہونے کے منافی نہیں،
اس لیے یہ کلمہ یقینی اور قطعی امور کے موقع امور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔
(3)
صحابہ کرام ؓنے آپ سے سوال کیا:
"أَوَلَسْنَا إِخْوَانَكَ؟" کہ کیا ہم آپ کے بھائی نہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
«أَنْتُمْ أَصْحَابِي وَإِخْوَانُنَا الَّذِينَ لَمْ يَأْتُوا بَعْدُ» کہ تم میرے ساتھی ہو،
ہمارے بھائی تو بعد میں آنے والے مسلمان ہیں۔
یعنی:
تمہیں ایک بلند اور اعلی شرف حاصل ہے،
اس کی موجودگی میں بھائی کہنے کی ضرورت نہیں ہے،
جس طرح کسی کو مومن کہہ دیں تو مسلم کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوا ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾ کی بنا پر رسول اپنے ماننے والوں کا بھائی بھی ہوتا ہے،
اور اس سے آپ کی توہین نہیں ہوتی۔
اس لیے اگر آپ افضل البشر اورسید البشر ہیں،
تو اس سے آپ کے بشر ہونے کی نفی نہیں ہوتی،
آپ ﷺ بشر ہیں،
اگرچہ سب سے افضل اور اعلی بشر ہیں۔
صحابہؓ﷢آپ کے بھائی بھی ہیں اور صحابی بھی،
لیکن بعد والے مسلمان آپ کے صرف دین وایمان کی بنیاد پر بھائی ہیں،
صحابی نہیں۔
(4)
جن لوگوں کو حوض کوثر سے جو میدان محشر میں ہو گا جب روکا جائے گا،
تو آپ ان کو اصحابی کہیں گے،
ان کو آواز دیں گے،
تو آپ ﷺ کو جواب دیاجائے گا:
«هَلْ تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ؟» یا «‏‏‏‏إِنَّهُمْ قَدْ بَدَّلُوا بَعْدَكَ» اور بعض روایات میں:
«لَا تَدْرِيْ مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ» «لَا عِلْمَ لَكَ بِمَا أَحْدَثُوْا بَعْدَكَ» وغیرہ الفاظ آئے ہیں،
جس سے یہ بات بلا شک وشبہ ثابت ہوتی ہے کہ آپ ﷺ کو غیب کا علم یا کلی علم نہیں ہے۔
ان صریح الفاظ کی موجودگی میں یہ کہنا (کہ نبی اکرمﷺ کا ان کو صحابی فرمانا)
عدم علم کی وجہ سے نہ تھا،
بلکہ اس لیے تھا کہ پہلے ان کو یہ امید ہو،
کہ ان کو پانی ملے گا اور پھر جب حوض سے دور کیا جائے گا اور ان کی امید ٹوٹے گی،
تو ان کو زیادہ عذاب ہوگا۔
یہ انتہائی رکیک تاویل نہیں ہے تو کیا ہے؟صحیح احادیث کی موجودگی میں اس من گھڑت بات کا قرینہ اوردلیل کیا ہے؟ کیا حوض پر آنے کے بعد ان کو دور کیا جائے گا؟ جب کہ صورت حال یہ ہے،
کہ فرشتے ان کو دور ہی روک لیں گے۔
نیز کیا وہ آپ کی آواز کہ یہ اصحابی ہیں،
سن لیں گے کہ ان کو یہ امید پیدا ہوگی،
کہ شاید ہمیں پانی مل جائے،
تو پھر «أُنَادِيهِمْ» میں آواز دوں گا "أَلَا هَلُمَّ" کا کیا مفہوم ہوگا؟ نیز آپﷺ تو جواب سنتے ہی فرما دیں گے:
«سُحْقًا سُحْقًا» تو امید کیوں کر پیدا ہوگی؟ اور «لَا عِلْمَ لَكَ،
هَلْ تَدْرِي»
كا کیا مفہوم ہوگا؟ اس کے بعد یہ تاویل کرنا،
کہ یہ بھی ہوسکتا ہے،
کہ اصحابی سے پہلے ہمزہ استفہام کا محذوف ہو۔
یعنی کیا یہ میرے اصحابی ہیں؟ یہ پہلی سے بھی بری تاویل ہے۔
اگر ہمزہ استفہام محذوف ہے،
تو پھر «أُنَادِيهِمْ» آواز دوں گا "أَلَا هَلُمَّ" آجاؤ! اس کا کیا مقصد ہے؟ آواز کس مقصد کےلیے دی جارہی ہے،
اور اس جواب کی کیا ضرورت ہے؟ «لَا عِلْمَ لَكَ مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ» اور یہ تاویل تو انتہائی مضحکہ خیز ہے،
کہ آپ تو دنیا میں فرما رہے ہیں:
کہ میرے حوض پر ایسے ایسے لوگ آئیں گے،
سو آخرت کا علم تو دور کی بات ہے۔
یہ علم کا اظہار ہے یا عدم علم کا،
کہ میرے حوض پر ایسے لوگ بھی آنے کی کوشش کریں گے جن کو میں اپنے سمجھوں گا،
جبکہ اصل حقیقت کی رو سے وہ میرے راستے پر چلنے والے نہیں ہوں گے،
اور جب مجھے اصل حقیقت کا علم ہو گا،
تو میں کہوں گا:
«سُحْقًا سُحْقًا» ۔
اس طرح ان متفق علیہ احادیث کے مقابلہ میں مسندِ بزار کی روایت پیش کی جاتی ہے،
کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
«حَیَاتِيْ خَیْرٌلَکُمْ وَمَمَاتِیْ خَیْرٌلَکُمٌ،
تُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُکُمْ،
فَمَا کَانَ مِنْ حَسَنٍ شَکَرْتُ اللہ عَلَیْہِ،
وَمَا کَانَ مِنْ شَيْءٍ اسْتَغْفَرْتُ اللہَ لَکُمْ»
میری زندگی تمہارے حق میں بہتر ہے،
اور میری موت بھی تمہارے حق میں بہتر ہوگی۔
تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں،
جو اچھے ہوں گے،
اس پر میں اللہ کا شکر اورتعریف کروں گا اور جو برے ہوں گے،
ان پر میں تمہارے لیے اللہ سے معافی طلب کروں گا۔
اب ظاہر ہے،
یہ حدیث اگر صحیح ہے تو متفق علیہ روایات کے مخالف اور معارض نہیں ہوسکتی،
کیونکہ یہ بات آپ ﷺ نے برزخی دور کے بارے میں بتائی ہے اور مذکورہ روایات کا تعلق وقوع قیامت کے بعد کے دور سے ہے۔
اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں: 1۔
آپ ﷺ کی زندگی کے دور کے بعد آپ کی موت کا دور ہے،
اور جو حضرات آپ ﷺ کو عالم الغیب یا کلی علم کا مالک قرار دیتے ہیں وہ آپ کی موت کے منکر ہیں،
آپ کو زندہ مانتے ہیں،
جب کہ یہ روایت آپ کی موت پر صراحتا دلالت کر رہی ہے۔

"تُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُکُمْ" مجھ پر تمہارے اعمال پیش کیے جائیں گے اس سے معلوم ہوتاہے،
آپ کو پتہ نہیں ہے یا آپ عالم الغیب نہیں ہیں،
وگرنہ اعمال کو آپ پر پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جن باتوں کا آپ ﷺ کو علم دے دیا جاتا ہے،
ان کا آپ کو پتہ چل جاتا ہے اورجن کا علم نہیں دیا جاتا،
ان کا پتہ نہیں چلتا،
"أَعْمَالُکُمْ" کے مخاطب آپ ﷺ کے صحابہؓ اور وہ لوگ ہیں جو آپ کے راستہ پر چلے،
اس کے اندر کوئی ترمیم وتنسیخ یا کمی وبیشی نہیں کی۔
جنہوں نے آپ ﷺ کے طریقہ یا آپ کے راستہ کو جھوڑ دیا،
وہ اس میں داخل نہیں ہیں،
اس لیے ان کے بارے میں فرمایا گیا:
«إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ» یہ لوگ مسلسل ایڑیوں کے بل دین سے پھرتے رہے یا فرمایا:
«لَا عِلْمَ لَكَ بمَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ» یا «يَرْجِعُونَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ»،
«لَا تَدْرِيْ مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ»،
«لَا تَدْرِيْ مَا عَمِلُوْا بَعْدَكَ» وغیرھا،
ان مختلف الفاظ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے،
کہ ان منافقوں،
مرتدوں اور بدعتیوں کے اعمال آپ ﷺ پر پیش نہیں کیے گئے،
اگر پیش کیے گئے ہوتے،
تو آپ کو الفاظ مذکورہ نہ کہے جاتے۔
اگر اس حدیث کا معنی یہ ہے:
کہ تمام امت کے اعمال آپ پر پیش کیے جاتے ہیں،
اور آپ سب کے لیے استغفا رکرتے ہیں،
جس سے سب کی بخشش ہو جائے گی،
تو پھر آپ کی امت کے لوگ دوزخ میں کیوں جائیں گے؟ اور آپ ان کی سفارش بار بار کیوں فرمائیں گے؟ اورآخر میں کچھ لوگ جانیں گے جن کو صرف اللہ کی رحمت سے ہی نکالا جائے گا جیسا کہ پیچھے شفاعت کےبیان میں تفصیلا گزر چکا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 584   

  الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 6  
... آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں کیسے پہچانیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے، اگر کسی آدمی کے سفید پیشانی اور چمکدار پاؤں والے گھوڑے سیاہ فام گھوڑوں میں ملے ہوئے ہوں، تو کیا وہ اپنے گھوڑے پہچان نہیں لے گا؟ صحابہ نے جواب دیا کہ کیوں نہیں... [صحيح ابن خزيمه: 6]
فوائد:
➊ قبرستان کی زیارت کے وقت مذکورہ دعا کا اہتمام مسنون و مستحب ہے البتہ اس سے یہ ثابت کرنا کہ مردے سنتے ہیں یہاں مردوں کے سننے نہ سننے کا بیان نہیں بلکہ یہ ان کی سلامتی کی دعا ہے۔
«وَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَيْنَا إِخْوَانَنَا» علماء کہتے ہیں، اس حدیث کی رو سے کار خیر کی اور فضلاء وصلحاء سے ملاقات کی تمنا کرنا جائز ہے اور آپ کے اس فرمان «وَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَيْنَا اِخْوَانَنَا» سے مقصود یہ خواہش ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو دنیا کی زندگی میں دیکھ پاتے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد موت کے بعد ملاقات کی تمنا ہے۔ امام باجی بیان کرتے ہیں کہ آپ کے اس فرمان «بَلْ أَنتُمْ أَصْحَابِي» (بلکہ تم میرے صحابہ ہو) میں صحابہ کے بھائی نہ ہونے کی نفی نہیں ہے، بلکہ آپ نے صحابہ کی صحبت ان کا زائد مرتبہ بیان کی ہے۔ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رفقاء اور بھائی ہیں اور جو لوگ بعد میں آئیں گے وہ بھائی ہیں لیکن صحابی نہیں۔ جیسا که فرمان باری تعالیٰ «إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ» [الحجرات: 10] مومن تو بھائی بھائی ہیں۔ میں اس موقف کی وضاحت ہے۔ [نووي: 137/3]
➌ اہل لغت بیان کرتے ہیں کہ الغُرة گھوڑے کی پیشانی میں سفیدی اور التحجيل، گھوڑے کی ٹانگوں اور ہاتھوں میں سفیدی ہے۔ علماء کی ایک جماعت نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ وضو امت محمدیہ کا خاصہ و امتیاز ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو شرف و فضیلت میں زیادہ کیا ہے اور کچھ دیگر علماء کا قول ہے کہ وضو اس امت کا خاصہ نہیں بلکہ روز قیامت اعضائے وضو کی چمک اس امت کا خاصہ و امتیاز ہے۔ [شرح النووى: 134/3]
➍ جن لوگوں کو حوض کوثر سے دھتکار دیا جائے گا یہ کون لوگ ہوں گے؟ اس بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔
1. اس سے مراد منافقین و مرتدین ہیں، ہو سکتا ہے انہیں اعضائے وضو کی چمک کے ساتھ اٹھایا جائے اور اس علامت کو دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ندا دیں پھر آپ کو بتا دیا جائے گا کہ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جن سے حوض کوثر پر وارد ہونے کا وعدہ کیا گیا ہے بلکہ یہ دین سے منحرف ہو گئے تھے۔
2. اس سے مقصود وہ لوگ ہیں جو حیات نبی ہی میں مسلمان تھے پھر آپ کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے اگرچہ ان پر وضو کے نشانات کی چمک نہیں ہو گی، لیکن ذاتی شناسائی کی وجہ سے آپ انہیں پہچانتے ہوں گے۔ پھر آپ کو آگاہ کیا جائے گا کہ یہ لوگ آپ کے بعد مرتد ہو گئے تھے۔
3. اس سے مراد اہل معاصی اور کبیرہ گناہوں کے مرتکبین ہیں، جو عقیدہ توحید پر فوت ہوئے اور وہ بدعتی لوگ مراد ہیں، جو بدعات کی وجہ سے خارج از اسلام نہیں، اس آخری قول کے مطابق یہ لوگ قطعی جہنمی نہیں ہوں گے، بلکہ ان کی سزا بڑھا دی جائے گی، پھر اللہ تعالیٰ ان پر رحم کریں گے اور انہیں جنت میں بغیر عذاب کے داخل کر دیں گے۔ [نووي: 135/3، 136]
   صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 6