كتاب الجهاد کتاب: جہاد کے فضائل و احکام 14. بَابُ: ارْتِبَاطِ الْخَيْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ باب: اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے گھوڑے رکھنے کا ثواب۔
عروہ بارقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھوڑوں کی پیشانی پر قیامت تک خیر و برکت بندھی ہوئی ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 43 (2850)، 44 (2852)، الخمس 8 (3119)، المناقب 28 (3642)، صحیح مسلم/الإمارة 26 (1873)، سنن الترمذی/الجہاد 19 (1694)، سنن النسائی/الخیل 6 (3604)، (تحفة الأشراف: 9897)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/375)، سنن الدارمی/الجہاد 34 (2470) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ جو گھوڑا جہاد کی نیت سے رکھا جائے، اس کا کھلانا پلانا چرانا سب اجر ہی اجر ہے، اور ہر ایک میں گھوڑے کے مالک کو ثواب ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر و برکت بندھی ہوئی ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 26 (1871)، سنن النسائی/الخیل 6 (3603)، (تحفة الأشراف: 8287)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجہاد 43 (2849)، المناقب 28 (3644)، موطا امام مالک/الجہاد 19 (44)، مسند احمد (2/49، 57، 101، 112) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھوڑوں کی پیشانی میں بھلائی ہے“ یا فرمایا: ”گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک خیر اور بھلائی بندھی ہوئی ہے، گھوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں، ایک شخص کے لیے وہ اجر و ثواب ہیں، ایک کے لیے ستر (پردہ) ہیں، اور ایک کے واسطے عذاب ہیں، (پھر آپ نے تفصیل بیان کی) اس شخص کے لیے تو باعث اجر و ثواب ہیں جو انہیں اللہ کی راہ میں جہاد کی غرض سے رکھے، اور انہیں تیار کرے، چنانچہ ان کے پیٹ میں جو چیز بھی جائے گی وہ اس شخص کے لیے نیکی شمار ہو گی، اگر وہ انہیں گھاس والی زمین میں بھی چرائے گا تو جو وہ کھائیں گے اس کا ثواب اسے ملے گا، اگر وہ انہیں بہتی نہر سے پانی پلائے گا تو پیٹ میں جانے والے ہر قطرے کے بدلے اسے ثواب ملے گا، حتیٰ کہ آپ نے ان کے پیشاب اور لید (گوبر) میں بھی ثواب بتایا، اگر وہ ایک یا دو میل دوڑیں تو بھی ہر قدم کے بدلے جسے وہ اٹھائیں گے ثواب ملے گا، اور جس شخص کے لیے گھوڑے ستر (پردہ) ہیں وہ ہے جو انہیں عزت اور زینت کی غرض سے رکھتا ہے، لیکن ان کی پیٹھ اور پیٹ کے حق سے تنگی اور آسانی کسی حال میں غافل نہیں رہتا، لیکن جس شخص کے حق میں یہ گھوڑے گناہ ہیں وہ شخص ہے جو غرور، تکبر، فخر اور ریا و نمود کی خاطر انہیں رکھتا ہے، تو یہی وہ گھوڑے ہیں جو اس کے حق میں گناہ ہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 6 (987)، (تحفة الأشراف: 12785)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الشرب المساقاة 12 (2371)، الجہاد 48 (2860)، المناقب 28 (3646)، تفسیر سورة الزلزلة 1 (4962)، الاعتصام 24 (7356)، سنن الترمذی/فضائل الجہاد 10 (1636)، سنن النسائی/الخیل (3592)، موطا امام مالک/الجہاد 1 (3)، مسند احمد (2/262، 283) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سواری کا حق یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان اس کو ضرورت کی وجہ سے مانگے تو اسے دے یا کوئی پریشان مسلمان راہ میں ملے تو اس کو سوار کر لے، اور بعضوں نے کہا: ان کی زکاۃ ادا کرے، لیکن جمہور علماء کے نزدیک گھوڑوں میں زکاۃ نہیں ہے اور پیٹ کا حق یہ ہے کہ ان کے پانی چارے کی خبر اچھی طرح رکھے اگر ہمیشہ ممکن نہ ہو تو کبھی کبھی خود اس کی دیکھ بھال کرے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کالا گھوڑا جس کی پیشانی، ہاتھ، پیر، ناک اور اوپر کا ہونٹ سفید ہوں، اور دایاں ہاتھ باقی جسم کی طرح ہو، سب سے عمدہ ہے، اگر وہ کالا نہ ہو تو انہیں صفات والا سرخ سیاہی مائل گھوڑا عمدہ ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجہاد20 (1695)، (تحفة الأشراف: 12121)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/300)، سنن الدارمی/الجہاد 35 (2472) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی کمیت ہو سفید پیشانی یا کمیت سفید ہاتھ پاؤں یا کمیت سفید لب اور بینی یا کمیت صرف جس کا دایاں ہاتھ سفید ہو، یہ سب عمدہ قسمیں ہیں، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشکی رنگ گھوڑوں کے سب رنگوں میں عمدہ ہے، اور حقیقت میں اس رنگ والا گھوڑا نہایت مضبوط اور محنتی ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے گھوڑے کو ناپسند فرماتے تھے جس کے تین پیر سفید اور ایک پیر کا رنگ باقی جسم کا ہو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 27 (1875)، سنن ابی داود/الجہاد 46 (2547)، سنن الترمذی/الجہاد 21 (1698)، سنن النسائی/الخیل 4 (3597)، (تحفة الأشراف: 14890)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/250، 436، 461، 476) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «شکال»: وہ یہ ہے کہ تین پاؤں سفید ہوں ایک سارے بدن کے رنگ پر ہو، اس کو «ارجل» بھی کہتے ہیں، اب تک گھوڑے والے ایسے رنگ کو مکروہ اور نامبارک سمجھتے ہیں، مگر عوام میں یہ مشہور ہے کہ اگر پیشانی پر بھی سفیدی ہو تو «شکال» ضرر نہیں کرتا، لیکن حدیث مطلق ہے اور بعضوں نے کہا کہ «شکال» یہ ہے کہ داہنا ہاتھ سفید ہو تو بایاں پاؤں سفید ہو یا بایاں ہاتھ سفید نہ ہو تو داہنا پاؤں سفید ہو «واللہ اعلم» قال الشيخ الألباني: صحيح
تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کی غرض سے گھوڑا باندھا، پھر دانہ چارہ اپنے ہاتھ سے کھلایا، تو اس کے لیے ہر دانے کے بدلے ایک نیکی ہو گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2059، ومصباح الزجاجة: 988) (صحیح)» (سند میں محمد بن عقبہ بیٹے، باپ اور دادا سب مجہول ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
|