(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب ، حدثنا عبد العزيز بن المختار ، حدثنا سهيل ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الخيل في نواصيها الخير" او قال:" الخيل معقود في نواصيها الخير"، قال سهيل: انا اشك الخير إلى يوم القيامة الخيل ثلاثة: فهي لرجل اجر، ولرجل ستر، وعلى رجل وزر، فاما الذي هي له اجر فالرجل يتخذها في سبيل الله ويعدها فلا تغيب شيئا في بطونها إلا كتب له اجر، ولو رعاها في مرج ما اكلت شيئا إلا كتب له بها اجر، ولو سقاها من نهر جار كان له بكل قطرة تغيبها في بطونها اجر، حتى ذكر الاجر في ابوالها وارواثها، ولو استنت شرفا او شرفين كتب له بكل خطوة تخطوها اجر، واما الذي هي له ستر فالرجل يتخذها تكرما وتجملا ولا ينسى حق ظهورها وبطونها في عسرها ويسرها، واما الذي هي عليه وزر فالذي يتخذها اشرا وبطرا وبذخا ورياء للناس فذلك الذي هي عليه وزر". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ ، حَدَّثَنَا سُهَيْلٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْخَيْلُ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ" أَوْ قَالَ:" الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ"، قَالَ سُهَيْلٌ: أَنَا أَشُكُّ الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ الْخَيْلُ ثَلَاثَةٌ: فَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَعَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ، فَأَمَّا الَّذِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ فَالرَّجُلُ يَتَّخِذُهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَيُعِدُّهَا فَلَا تُغَيِّبُ شَيْئًا فِي بُطُونِهَا إِلَّا كُتِبَ لَهُ أَجْرٌ، وَلَوْ رَعَاهَا فِي مَرْجٍ مَا أَكَلَتْ شَيْئًا إِلَّا كُتِبَ لَهُ بِهَا أَجْرٌ، وَلَوْ سَقَاهَا مِنْ نَهَرٍ جَارٍ كَانَ لَهُ بِكُلِّ قَطْرَةٍ تُغَيِّبُهَا فِي بُطُونِهَا أَجْرٌ، حَتَّى ذَكَرَ الْأَجْرَ فِي أَبْوَالِهَا وَأَرْوَاثِهَا، وَلَوِ اسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ تَخْطُوهَا أَجْرٌ، وَأَمَّا الَّذِي هِيَ لَهُ سِتْرٌ فَالرَّجُلُ يَتَّخِذُهَا تَكَرُّمًا وَتَجَمُّلًا وَلَا يَنْسَى حَقَّ ظُهُورِهَا وَبُطُونِهَا فِي عُسْرِهَا وَيُسْرِهَا، وَأَمَّا الَّذِي هِيَ عَلَيْهِ وِزْرٌ فَالَّذِي يَتَّخِذُهَا أَشَرًا وَبَطَرًا وَبَذَخًا وَرِيَاءً لِلنَّاسِ فَذَلِكَ الَّذِي هِيَ عَلَيْهِ وِزْرٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھوڑوں کی پیشانی میں بھلائی ہے“ یا فرمایا: ”گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک خیر اور بھلائی بندھی ہوئی ہے، گھوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں، ایک شخص کے لیے وہ اجر و ثواب ہیں، ایک کے لیے ستر (پردہ) ہیں، اور ایک کے واسطے عذاب ہیں، (پھر آپ نے تفصیل بیان کی) اس شخص کے لیے تو باعث اجر و ثواب ہیں جو انہیں اللہ کی راہ میں جہاد کی غرض سے رکھے، اور انہیں تیار کرے، چنانچہ ان کے پیٹ میں جو چیز بھی جائے گی وہ اس شخص کے لیے نیکی شمار ہو گی، اگر وہ انہیں گھاس والی زمین میں بھی چرائے گا تو جو وہ کھائیں گے اس کا ثواب اسے ملے گا، اگر وہ انہیں بہتی نہر سے پانی پلائے گا تو پیٹ میں جانے والے ہر قطرے کے بدلے اسے ثواب ملے گا، حتیٰ کہ آپ نے ان کے پیشاب اور لید (گوبر) میں بھی ثواب بتایا، اگر وہ ایک یا دو میل دوڑیں تو بھی ہر قدم کے بدلے جسے وہ اٹھائیں گے ثواب ملے گا، اور جس شخص کے لیے گھوڑے ستر (پردہ) ہیں وہ ہے جو انہیں عزت اور زینت کی غرض سے رکھتا ہے، لیکن ان کی پیٹھ اور پیٹ کے حق سے تنگی اور آسانی کسی حال میں غافل نہیں رہتا، لیکن جس شخص کے حق میں یہ گھوڑے گناہ ہیں وہ شخص ہے جو غرور، تکبر، فخر اور ریا و نمود کی خاطر انہیں رکھتا ہے، تو یہی وہ گھوڑے ہیں جو اس کے حق میں گناہ ہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: سواری کا حق یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان اس کو ضرورت کی وجہ سے مانگے تو اسے دے یا کوئی پریشان مسلمان راہ میں ملے تو اس کو سوار کر لے، اور بعضوں نے کہا: ان کی زکاۃ ادا کرے، لیکن جمہور علماء کے نزدیک گھوڑوں میں زکاۃ نہیں ہے اور پیٹ کا حق یہ ہے کہ ان کے پانی چارے کی خبر اچھی طرح رکھے اگر ہمیشہ ممکن نہ ہو تو کبھی کبھی خود اس کی دیکھ بھال کرے۔
الخيل معقود في نواصيها الخير إلى يوم القيامة الخيل لثلاثة لرجل أجر لرجل ستر على رجل وزر أما الذي له أجر فالذي يتخذها في سبيل الله فيعدها له هي له أجر لا يغيب في بطونها شيء إلا كتب الله له أجرا
الخيل في نواصيها الخير الخيل ثلاثة فهي لرجل أجر لرجل ستر على رجل وزر أما الذي هي له أجر فالرجل يتخذها في سبيل الله ويعدها فلا تغيب شيئا في بطونها إلا كتب له أجر ولو رعاها في مرج ما أكلت شيئا إلا كتب له بها أجر ولو سقاها من نهر جار كان له بكل قطرة تغ
الخيل معقود في نواصيها الخير إلى يوم القيامة الخيل ثلاثة هي لرجل أجر هي لرجل ستر هي على رجل وزر أما الذي هي له أجر فالذي يحتبسها في سبيل الله فيتخذها له ولا تغيب في بطونها شيئا إلا كتب له بكل شيء غيبت في بطونها أجر ولو عرضت له مرج
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2788
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جہاد کے مقصد کے لیے تیار کی جانے والی چیز کی دیکھ بھال ثواب کا باعث ہے۔
(2) جہاد کے لیے استعمال ہونے والی گاڑیوں میں استعمال ہونے والا پیٹرول اور ان کی مرمت پر ہونے والا خرچ سب نیکیوں میں درج ہوتا ہے۔
(3) گھوڑوں کی لید اور پیشاب پر قیاس کرکے کہا جا سکتا ہے کہ جہاد کے لیے استعمال ہونے والی گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بنی نیکیوں کے پلڑے میں رکھا جائےگا۔
(4) اپنی جائز ضروریات کے لیے ذاتی گاڑی رکھنا جائز ہے لیکن اس کا حق یہ بھی ہے کہ کسی غریب ضرورت مند کو بلامعاوضہ اس کی منزل پر پہنچایا جائے اور ہمسایوں اور رشتے داروں کی چھوٹی موٹی ضروریات پوری کی جائیں۔
(5) کوئی بھی ضرورت کی چیز جو معاشرے میں دولت مندی کی علامت سمجھی جاتی ہو محض فخر کے اظہار کے لیے اسے حاصل کرنا اور جا بے جا اس کا اظہار کرنا بڑا گناہ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2788