كتاب الجهاد کتاب: جہاد کے فضائل و احکام 44. بَابُ: السَّبَقِ وَالرِّهَانِ باب: گھوڑ دوڑ میں مقابلہ کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے دو گھوڑوں کے مابین ایک گھوڑا داخل کیا، اور اسے جیتنے کا یقین نہیں تو یہ جوا نہیں ہے، لیکن جس شخص نے دو گھوڑوں کے مابین ایک گھوڑا داخل کیا، اور اسے جیتنے کا یقین ہے تو یہ جوا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد 49 (2579)، (تحفة الأشراف: 13121)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/505) (ضعیف)» (سفیان بن حسین کی زہری سے روایت میں ضعف ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإروا ء: 1509)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کو پھرتیلا بنایا، آپ پھرتیلے چھریرے بدن والے گھوڑوں کو مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک اور غیر پھرتیلے گھوڑوں کو ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک دوڑاتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 25 (1870)، (تحفة الأشراف: 7956)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة 41 (120)، الجہاد 56 (2868)، 57 (2869)، 58 (2870)، الاعتصام 16 (7336)، سنن ابی داود/الجہاد 67 (2575)، سنن الترمذی/الجہاد 22 (1699)، سنن النسائی/الخیل 12 (3614)، موطا امام مالک/ الجہاد 19 (45)، مسند احمد (2/5، 55، 56)، سنن الدارمی/الجہاد 36 (2473) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «تضمیر» (پھرتیلا بنانا) یہ ہے کہ گھوڑے کو پہلے خوب کھلایا جائے یہاں تک کہ موٹا ہو جائے، پھر اس کا چار ہ آہستہ آہستہ کم کر دیا جائے، اور اسے ایک کوٹھری میں بند کر کے اس پر جھول ڈال دی جائے تاکہ گرم ہو اور اسے خوب پسینہ آ جائے، ایسا کرنے سے گھوڑا سبک اور تیز رفتار ہو جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسابقت (آگے بڑھنے) کی شرط گھوڑے اور اونٹ کے علاوہ کسی میں جائز نہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الخیل 13 (3615)، (تحفة الأشراف: 14877)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الجہاد 67 (2574)، سنن الترمذی/الجہاد 22 (1700)، مسند احمد (2/256، 358، 425، 474) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ترمذی اور ابوداود کی روایت میں «أو نصل» (یا تیر میں) زیادہ ہے،مطلب یہ ہے کہ ان تینوں میں آگے بڑھنے کی شرط لگانا اور جیتنے پر مال لینا جائز ہے، تیر میں یہ شرط ہے کہ کس کا دور جاتا ہے، علامہ طیبی کہتے ہیں کہ گدھے اور خچر بھی گھوڑے کی طرح ہیں، ان میں بھی شرط درست ہو گی، لیکن حدیث میں یہ تین چیزیں مذکور ہیں: «نصل» یعنی تیر، «خف» یعنی اونٹ، «حافر» یعنی گھوڑا، ایک شخص نے حدیث میں اپنی طرف سے یہ بڑھا دیا «أو جناح» یعنی پرندہ اڑانے میں شرط لگانا درست ہے جیسے کبوتر باز کیا کرتے ہیں اور یہ لفظ اس وقت روایت کیا جب ایک عباسی خلیفہ کبوتر بازی کر رہا تھا، یہ شخص خلیفہ کے پاس گیا اور اس کا دل خوش کرنے اور کبوتر بازی کو جائز کرنے کی خاطر حدیث میں یہ لفظ اپنی طرف سے بڑھا دیا اور اللہ کا خوف بالکل نہ کیا، اللہ تعالیٰ ائمہ حدیث کو جزائے خیر دے اگر وہ محنت کر کے صحیح حدیثوں کو جھوٹی اور ضعیف حدیثوں سے الگ نہ کرتے تو دین برباد ہو جاتا، حدیث سے یہ اہتمام اس امت سے خاص ہے، اگلی امتوں والے کتاب الہی کی بھی اچھی طرح حفاظت نہ کر سکے حدیث کا کیا ذکر «ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم» (سورة الجمعة: 4)۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|