كتاب الجهاد کتاب: جہاد کے فضائل و احکام 16. بَابُ: فَضْلِ الشَّهَادَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ باب: اللہ کی راہ میں شہادت کی فضیلت۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شہیدوں کا ذکر آیا، تو آپ نے فرمایا: ”زمین شہید کا خون خشک بھی نہیں کر پاتی کہ اس کی دونوں بیویاں ان دائیوں کی طرح اس پر جھپٹتی ہیں، جنہوں نے غیر آباد مقام میں اپنے بچے کھو دئیے ہوں، ہر بیوی کے ہاتھ میں ایسا جوڑا ہوتا ہے جو دنیا اور دنیا کی تمام نعمتوں سے بہتر ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13500، ومصباح الزجاجة: 992)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/297، 427) (ضعیف جدا)» (ہلال بن أبی زینب مجہول اور شہر بن حوشب ضعیف ہیں، شعبہ نے شہر سے روایت ترک کر دی تھی)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے یہاں شہید کے لیے چھ بھلائیاں ہیں: ۱- خون کی پہلی ہی پھوار پر اس کی مغفرت ہو جاتی ہے، اور جنت میں اس کو اپنا ٹھکانا نظر آ جاتا ہے ۲- عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے، ۳- حشر کی بڑی گھبراہٹ سے مامون و بےخوف رہے گا، ۴- ایمان کا جوڑا پہنایا جاتا ہے، ۵- حورعین سے نکاح کر دیا جاتا ہے، ۶- اس کے اعزہ و اقرباء میں سے ستر آدمیوں کے بارے میں اس کی سفارش قبول کی جاتی ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/فضائل الجہاد 25 (1663)، (تحفة الأشراف: 11556)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/131) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب جنگ احد میں (ان کے والد) عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ قتل کر دئیے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جابر! اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد سے جو فرمایا ہے کیا میں تمہیں وہ نہ بتاؤں“؟ میں نے کہا: کیوں نہیں! ضرور بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جب بھی کسی سے بات کی تو پردہ کے پیچھے سے لیکن تمہارے والد سے آمنے سامنے بات کی، اور کہا: اے میرے بندے! مجھ سے اپنی خواہش کا اظہار کرو، میں تجھے عطا کروں گا، انہوں نے کہا: اے میرے رب! تو مجھے دوبارہ زندہ کر دے کہ میں دوبارہ تیرے راستے میں مارا جاؤں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس بات کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے کہ دنیا میں دوبارہ لوٹایا نہیں جائے گا، انہوں نے کہا: اے میرے رب! میرے پسماندگان کو (میرا حال) پہنچا دے، تو یہ آیت نازل ہوئی: «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا» (سورۃ آل عمران: ۱۶۹) ”جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں تم مردہ مت سمجھو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2257 (ألف)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیر القرآن (3010)، تقدم برقم: 190 (حسن)»
وضاحت: ۱؎: اس سے بدھ مت والوں اور ہندؤں کا مذہب باطل ہوتا ہے، ان کے نزدیک سب آدمی اپنے اپنے اعمال کے موافق سزا اور جزا پا کر پھر دنیا میں جنم لیتے ہیں، مگر جوپرم ہنس یعنی کامل فقیر اللہ کی ذات میں غرق ہو جاتا ہے اس کا جنم نہیں ہوتا۔ قال الشيخ الألباني: حسن
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون» کے بارے میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شہداء کی روحیں سبز چڑیوں کی شکل میں جنت میں جہاں چاہیں چلتی پھرتی ہیں، پھر شام کو عرش سے لٹکی ہوئی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں، ایک بار کیا ہوا کہ روحیں اسی حال میں تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف جھانکا پھر فرمانے لگا: تمہیں جو چاہیئے مانگو، روحوں نے کہا: ہم جنت میں جہاں چاہتی ہیں چلتی پھرتی ہیں، اس سے بڑھ کر کیا مانگیں؟ جب انہوں نے دیکھا کہ بغیر مانگے خلاصی نہیں تو کہنے لگیں: ہمارا سوال یہ ہے کہ تو ہماری روحوں کو دنیاوی جسموں میں لوٹا دے کہ ہم پھر تیرے راستے میں قتل کئے جائیں، اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگ رہی ہیں تو چھوڑ دیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 33 (1887) سنن الترمذی/تفسیر القرآن 4 (3011)، (تحفة الأشراف: 9570)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الجہاد 19 (2454) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل کئے جائیں ان کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ اپنے مالک کے پاس زندہ ہیں، ان کو روزی ملتی ہے، اس آیت سے شہیدوں کی زندگی اور ان کی روزی ثابت ہوئی، اور دوسری آیتوں اور حدیثوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حقیقت میں بدن سے روح کے نکلنے کا نام موت ہے، نہ یہ کہ روح کا فنا ہو جانا پس جب روح باقی ہے اور فنا نہیں ہوئی، تو زندگی بھی باقی ہے، البتہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ دنیا کی سی زندگی ہے، بلکہ شاید دنیاوی زندگی سے زیادہ قوی اور طاقتور ہو، اگر کوئی اعتراض کرے کہ جب سب لوگ زندہ ہیں تو پھر شہداء کی کیا خصوصیت ہے؟ حالانکہ اس آیت سے ان کی خصوصیت نکلتی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ شہداء کی خصوصیت اور ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ زندہ بھی ہیں اور اللہ کے پاس معظم و مکرم بھی، ان کو جنت کے پھل روز کھانے کو ملتے ہیں، یہ سب باتیں اوروں کے لئے نہ ہوں گی، مگر دوسری حدیث میں ہے کہ مومنوں کی روحیں چڑیوں کے لباس میں جنت میں چلتی پھرتی ہیں، اس میں سارے مومن داخل ہو گئے، اور ایک حدیث میں ہے کہ قبر میں جنت کی طرف ایک راستہ مومن کے لئے کھول دیا جائے گا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت تک مومن کی روح وہیں رہے گی، غرض روح کے مسکن کے باب میں علماء کے بہت اقوال ہیں جن کو امام ابن القیم رحمہ اللہ نے تفصیل سے «حادی الأرواح إلی بلاد الأفراح» میں ذکر کیا ہے، اور سب سے زیادہ راجح قول یہی ہے کہ مومنوں کی روحیں جنت میں ہیں، اور کافروں کی جہنم میں، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شہید کو قتل سے اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی کہ تمہیں چیونٹی کاٹنے سے ہوتی ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/فضائل الجہاد 26 (1668)، سنن النسائی/الجہاد 35 (3163)، (تحفة الأشراف: 12861)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/297)، سنن الدارمی/الجہاد 17 (2452) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی بہت ہلکا اور خفیف صدمہ ہوتا ہے جس کا احساس نہیں ہوتا اور یہ ہلکا صدمہ بھی مرتے ہی جاتا رہتا ہے، پھر تو طرح طرح کے عیش اور آرام نصیب ہوتے ہیں، یہاں تک کہ دوبارہ مارے جانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے، یا اللہ! تو اپنے فضل و کرم سے موت کو ہم پر آسان کر دے کہ چیونٹی کے کاٹنے کی طرح بھی معلوم نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
|