كتاب الجهاد کتاب: جہاد کے فضائل و احکام 30. بَابُ: الْغَارَةِ وَالْبَيَاتِ وَقَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ باب: دشمن پر حملہ کرنے، شبخون (رات میں چھاپہ) مارنے، ان کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کے احکام کا بیان۔
صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ مشرکین کی آبادی پر شبخون مارتے (رات میں حملہ کرتے) وقت عورتیں اور بچے بھی قتل ہو جائیں گے، تو اس کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بھی انہیں میں سے ہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 146 (3012)، صحیح مسلم/الجہاد 9 (1785)، سنن الترمذی/السیر 19 (1570)، سنن ابی داود/الجہاد 121 (2672)، (تحفة الأشراف: 4939)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/38، 71، 72، 73) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ آمادئہ جنگ اور دشمنی پر اصرار کرنے والے اور اسلام کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگانے والوں پر رات کے حملہ کا مسئلہ ہے، جن تک اسلام کی دعوت سالہا سال تک اچھی طرح سے پہنچانے کا انتظام کیا گیا، اب آخری حربہ کے طور پر ان کے قلع قمع کا ہر دروازہ کھلا ہوا ہے، اور ان کے ساتھ رہنے والی آبادی میں موجود بچوں اور عورتوں کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے، تو یہ بدرجہ مجبوری ہے اس لئے کوئی حرج نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ قبیلہ ہوازن سے جہاد کیا، چنانچہ ہم بنی فزارہ کے چشمہ کے پاس آئے اور ہم نے وہیں پر پڑاؤ ڈالا، جب صبح کا وقت ہوا، تو ہم نے ان پر حملہ کر دیا، پھر ہم چشمہ والوں کے پاس آئے ان پر بھی شبخون مارا، اور ان کے نو یا سات گھروں کے لوگوں کو قتل کیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد 134 (2597)، (تحفة الأشراف: 4516)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجہاد 14 (1755)، مسند احمد (5/377) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں ایک عورت کو دیکھا جسے قتل کر دیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8401)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجہاد 147 (3014)، صحیح مسلم/الجہاد 8 (1744)، سنن ابی داود/الجہاد 121 (2668)، سنن الترمذی/الجہاد 19 (1569)، موطا امام مالک/الجہاد 3 (9)، مسند احمد (2/122، 123)، سنن الدارمی/السیر 25 (2505) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایسے بچے، عورتیں یا بوڑھے جو شریک جنگ نہ ہوں، اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ بھی شریک جنگ ہیں، تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
حنظلہ الکاتب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ (جنگ) میں شریک تھے، ہمارا گزر ایک مقتول عورت کے پاس سے ہوا، وہاں لوگ اکٹھے ہو گئے تھے، (آپ کو دیکھ کر) لوگوں نے آپ کے لیے جگہ خالی کر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو لڑنے والوں میں نہ تھی“ (پھر اسے کیوں مار ڈالا گیا) اس کے بعد ایک شخص سے کہا: خالد بن ولید کے پاس جاؤ، اور ان سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دے رہے ہیں کہ عورتوں، بچوں، مزدوروں اور خادموں کو ہرگز قتل نہ کرنا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3449، ومصباح الزجاجة: 1008)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الجہاد 121 (2669)، مسند احمد (4/178) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
اس سند سے رباح بن ربیع سے بھی اسی طرح مروی ہے، ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں: سفیان ثوری اس میں غلطی کرتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد 121 (2669)، (تحفة الأشراف: 3600)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/488، 4/178، 346) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی سفیان نے ابوالزناد سے اور انہوں نے مرقع بن عبداللہ سے اور مرقع نے حنظلہ سے روایت کی ہے، جب کہ اس کی دوسری سند میں مغیرہ بن شعبہ سے اور مرقع نے اپنے دادا رباح بن الربیع سے روایت کی ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
|