كتاب الجهاد کتاب: جہاد کے فضائل و احکام 18. بَابُ: السِّلاَحِ باب: اسلحہ کا بیان۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن اس حال میں مکہ داخل ہوئے کہ آپ کے سر پر خود تھا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/جزاء الصید 18 (1846)، الجہاد160 (3044)، المغازي 48 (4286)، اللباس 17 (5808)، صحیح مسلم/الحج 84 (1357)، سنن ابی داود/الجہاد 127 (2685)، سنن الترمذی/الجہاد 18 (1693)، الشمائل 16 (106)، سنن النسائی/الحج 107 (2870، 2871)، (تحفة الأشراف: 1527)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 81 (247)، مسند احمد (3/109، 164، 180، 186، 224، 232، 240)، سنن الدارمی/المناسک 88 (1981)، السیر 20 (2500) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: خود لوہے کی ٹوپی کو کہتے ہیں جسے تلوار وغیرہ سے بچاؤ کے لیے سر پر پہنا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد کے موقعہ پر اوپر نیچے دو زرہیں پہنیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3805، ومصباح الزجاجة: 993)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الجہاد 75 (2590)، مسند احمد (3/449) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سلیمان بن حبیب کہتے ہیں کہ ہم ابوامامہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، تو وہ ہماری تلواروں میں چاندی کا کچھ زیور دیکھ کر غصہ ہو گئے، اور کہنے لگے: لوگوں (صحابہ کرام) نے بہت ساری فتوحات کیں، لیکن ان کی تلواروں کا زیور سونا چاندی نہ تھا، بلکہ سیسہ، لوہا اور علابی تھا۔ ابوالحسن قطان کہتے ہیں: علابی: اونٹ کا پٹھا (چمڑا) ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 83 (2909)، (تحفة الأشراف: 4874) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے دن اپنی ذوالفقار نامی تلوار (علی رضی اللہ عنہ کو) انعام میں دی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/السیر 12 (1516)، (تحفة الأشراف: 5827)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/2461، 271) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ انعام بطور نفل تھا اور نفل اس انعام کو کہتے ہیں جو کسی مجاہد کو اس کی کارکردگی اور بہادری کے صلہ میں حصہ سے زیادہ دیا جاتا ہے، یہ تلوار پہلے عاص بن امیہ کی تھی جو بدر کے دن کام آیا، پھر یہ رسول اکرم ﷺ کے پاس آئی، آپ نے اسے علی رضی اللہ عنہ کو دے دیا، اور ان کے پاس یہ تلوار ان کے فوت ہونے تک رہی۔ قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کے لیے جاتے تو اپنے ساتھ برچھا لے جاتے، اور لوٹتے وقت اسے پھینک دیتے، انہیں دینے کے لیے کوئی اسے اٹھا لاتا، اس پر علی رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کی یہ حرکت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور بتاؤں گا، تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسا نہ کریں، کیونکہ اگر آپ نے ایسا کیا تو گمشدہ چیز اٹھائی نہیں جائے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بن ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10182، ومصباح الزجاجة: 994)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/148) (ضعیف الإسناد)» (ابواسحاق مدلس اور مختلط ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اور ابو خلیل عبد اللہ بن أبی الخلیل مقبول عند المتابعہ ہیں، اور ان کا کوئی متابع نہیں ہے، تو وہ لین الحدیث ہوئے، امام بخاری نے فرمایا کہ ان کی متابعت نہیں کی جائے گی)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں میں ایک عربی کمان تھی، اور ایک شخص کے ہاتھ میں آپ نے فارسی کمان دیکھی تو فرمایا: ”یہ کیا ہے؟ اسے پھینک دو، اور اس طرح کی رکھو، اور نیزے رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے ان دونوں کے ذریعہ سے دین کو ترقی دے گا، اور تمہیں دوسرے ملکوں کو فتح کرنے پر قادر بنا دے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10326، ومصباح الزجاجة: 995) (ضعیف الاسناد)» (عبداللہ بن بشر الحبرانی ضعیف راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
|