(مرفوع) حدثنا مسدد بن مسرهد، حدثنا يحيى، عن ابن ابي عروبة، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" على اليد ما اخذت حتى تؤدي، ثم إن الحسن نسي، فقال هو: امينك لا ضمان عليه". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" عَلَى الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَ، ثُمَّ إِنَّ الْحَسَنَ نَسِيَ، فَقَالَ هُوَ: أَمِينُكَ لَا ضَمَانَ عَلَيْهِ".
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لینے والے ہاتھ کی ذمہ داری ہے کہ جو لیا ہے اسے واپس کرے“ پھر حسن بھول گئے اور یہ کہنے لگے کہ جس کو تو مانگنے پر چیز دے تو وہ تمہاری طرف سے اس چیز کا امین ہے (اگر وہ چیز خود سے ضائع ہو جائے تو اس پر کوئی تاوان (معاوضہ و بدلہ) نہ ہو گا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البیوع 39 (1266)، سنن ابن ماجہ/الصدقات 5 (2400)، (تحفة الأشراف: 4584)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/12، 13)، سنن الدارمی/البیوع 56 (2638) (ضعیف)» (قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)
Narrated Samurah: The Prophet ﷺ as saying: The hand which takes is responsible till it pays. Then al-Hasan forgot and said: (If you give something on loan to a man), he is your depositor ; there is no compensation (for it) on him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3554
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کی لڑائی کے دن ان سے کچھ زرہیں عاریۃً لیں تو وہ کہنے لگے: اے محمد! کیا آپ زبردستی لے رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں عاریت کے طور پر لے رہا ہوں، جس کی واپسی کی ذمہ داری میرے اوپر ہو گی“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ یزید کی بغداد کی روایت ہے اور واسط ۱؎ میں ان کی جو روایت ہے وہ اس سے مختلف ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 4945)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/401، 6/465) (صحیح)»
Narrated Safwan ibn Umayyah: The Messenger of Allah ﷺ borrowed coats of mail from him on the day of (the battle of) Hunayn. He asked: Are you taking them by force. Muhammad? He replied: No, it is a loan with a guarantee of their return. Abu Dawud said: This tradition narrated by Yazid (b. Harun) at Baghdad. There is some change in the tradition narrated by him at Wasit, which is something different.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3555
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة، حدثنا جرير، عن عبد العزيز بن رفيع، عن اناس من آل عبد الله بن صفوان، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" يا صفوان، هل عندك من سلاح؟ قال: عارية، ام غصبا؟ قال: لا بل عارية، فاعاره ما بين الثلاثين إلى الاربعين درعا، وغزا رسول الله صلى الله عليه وسلم حنينا، فلما هزم المشركون جمعت دروع صفوان، ففقد منها ادراعا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لصفوان: إنا قد فقدنا من ادراعك ادراعا، فهل نغرم لك؟ قال: لا يا رسول الله، لان في قلبي اليوم ما لم يكن يومئذ"، قال ابو داود: وكان اعاره قبل ان يسلم، ثم اسلم. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ أُنَاسٍ مِنْ آلِ عَبدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَا صَفْوَانُ، هَلْ عِنْدَكَ مِنْ سِلَاحٍ؟ قَالَ: عَارِيَةً، أَمْ غَصْبًا؟ قَالَ: لَا بَلْ عَارِيَةً، فَأَعَارَهُ مَا بَيْنَ الثَّلَاثِينَ إِلَى الْأَرْبَعِينَ دِرْعًا، وَغَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا، فَلَمَّا هُزِمَ الْمُشْرِكُونَ جُمِعَتْ دُرُوعُ صَفْوَانَ، فَفَقَدَ مِنْهَا أَدْرَاعًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَفْوَانَ: إِنَّا قَدْ فَقَدْنَا مِنْ أَدْرَاعِكَ أَدْرَاعًا، فَهَلْ نَغْرَمُ لَكَ؟ قَالَ: لَا يَا رَسُولَ اللَّه، لِأَنَّ فِي قَلْبِي الْيَوْمَ مَا لَمْ يَكُنْ يَوْمَئِذٍ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَانَ أَعَارَهُ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ، ثُمَّ أَسْلَمَ.
عبداللہ بن صفوان کے خاندان کے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے صفوان! کیا تیرے پاس کچھ ہتھیار ہیں؟“ انہوں نے کہا: عاریۃً چاہتے ہیں یا زبردستی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زبردستی نہیں عاریۃً“ چنانچہ اس نے آپ کو بطور عاریۃً تیس سے چالیس کے درمیان زرہیں دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کی لڑائی لڑی، پھر جب مشرکین ہار گئے اور صفوان رضی اللہ عنہ کی زرہیں اکٹھا کی گئیں تو ان میں سے کچھ زرہیں کھو گئی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صفوان! تمہاری زرہوں میں سے ہم نے کچھ زرہیں کھو دی ہیں، تو کیا ہم تمہیں ان کا تاوان دے دیں؟“ انہوں نے کہا: نہیں، اللہ کے رسول! آج میرے دل میں جو بات ہے (جو میں دیکھ رہا اور سوچ رہا ہوں) وہ بات اس وقت نہ تھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: انہوں نے اسلام لانے سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ زرہیں عاریۃً دی تھیں پھر اسلام لے آئے (تو اسلام لے آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون تاوان لیتا؟)۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 4945) (صحیح)» (پچھلی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں مجہول رواة ہیں)
Narrated Some people: Abdul Aziz ibn Rufay narrated on the authority of some people from the descendants of Abdullah ibn Safwan who reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Have you weapons, Safwan? He asked: On loan or by force? He replied: No, but on loan. So he lent him coats of mail numbering between thirty and forty! The Messenger of Allah ﷺ fought the battle of Hunayn. When the polytheists were defeated, the coats of mail of Safwan were collected. Some of them were lost. The Messenger of Allah ﷺ said to Safwan: We have lost some coats of mail from your coats of mail. Should we pay compensation to you? He replied: No. Messenger of Allah, for I have in my heart today what I did not have that day. Abu Dawud said: He lent him before embracing Islam. Then he embraced Islam.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3556
اس سند سے بھی آل صفوان کے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ زرہیں عاریۃً لیں، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (3562)، (تحفة الأشراف: 4945)(صحیح)» (روایت نمبر 3562 سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں مجہول رواة ہیں)
The tradition mentioned above has also been transmitted by Ata from some people of the descendants of Safwan saying: The Prophet ﷺ borrowed. He then transmitted the rest of the tradition to the same effect.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3557
(مرفوع) حدثنا عبد الوهاب بن نجدة الحوطي، حدثنا ابن عياش، عن شرحبيل بن مسلم، قال: سمعت ابا امامة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن الله عز وجل قد اعطى كل ذي حق حقه، فلا وصية لوارث، ولا تنفق المراة شيئا من بيتها إلا بإذن زوجها، فقيل: يا رسول الله، ولا الطعام، قال: ذاك افضل اموالنا، ثم قال: العارية مؤداة، والمنحة مردودة، والدين مقضي، والزعيم غارم". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ الْحَوْطِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ، وَلَا تُنْفِقُ الْمَرْأَةُ شَيْئًا مِنْ بَيْتِهَا إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَا الطَّعَامَ، قَالَ: ذَاكَ أَفْضَلُ أَمْوَالِنَا، ثُمَّ قَالَ: الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ، وَالْمِنْحَةُ مَرْدُودَةٌ، وَالدَّيْنُ مَقْضِيٌّ، وَالزَّعِيمُ غَارِمٌ".
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ عزوجل نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے تو اب وارث کے واسطے وصیت نہیں ہے، اور عورت اپنے گھر میں شوہر کی اجازت کے بغیر خرچ نہ کرے“ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کھانا بھی نہ دے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو ہم مردوں کا بہترین مال ہے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عاریۃً دی ہوئی چیز کی واپسی ہو گی (اگر چیز موجود ہے تو چیز، ورنہ اس کی قیمت دی جائے گی) دودھ استعمال کرنے کے لیے دیا جانے والا جانور (دودھ ختم ہو جانے کے بعد) واپس کر دیا جائے گا، قرض کی ادائیگی کی جائے گی اور کفیل ضامن ہے“(یعنی جس قرض کا ذمہ لیا ہے اس کا ادا کرنا اس کے لیے ضروری ہو گا)۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزکاة 34 (1265)، الوصایا 5 (2120)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 6 (2713)، (تحفة الأشراف: 4882)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/267) (صحیح)»
Narrated Abu Umamah: I heard the Messenger of Allah ﷺ Said: Allah, Most Exalted, has appointed for everyone who has a right what is due to him, and no will be made to an heir, and a woman should not spend anything from her house except with the permission of her husband. He was asked: Even foodgrain, Messenger of Allah? He replied: That is the best of our property. He then said: A loan must be paid back, a she-camel lent for a time for milking must be returned, a debt must be discharged, one who stands surety is held responsible.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3558
یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”جب تمہارے پاس میرے فرستادہ پہنچیں تو انہیں تیس زرہیں اور تیس اونٹ دے دینا“ میں نے کہا: کیا اس عاریت کے طور پر دوں جس کا ضمان لازم آتا ہے یا اس عاریت کے طور پر جو مالک کو واپس دلائی جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مالک کو واپس دلائی جانے والی عاریت کے طور پر“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حبان ہلال الرائی کے ماموں ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11841)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/222) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «أعارية مضمونة» یہ ہے کہ اگر وہ چیز ضائع ہو جائے گی تو اس کی قیمت ادا کی جائے گی، اور «أعارية مؤداة» یہ ہے کہ اگر چیز بعینہٖ موجود ہے تو اسے واپس دینا ہو گا، اور اگر وہ چیز ضائع ہو گئی تو قیمت ادا کرنے کی ذمہ داری نہ ہو گی۔
Narrated Yala ibn Umayyah: The Messenger of Allah ﷺ said to me: When my messengers come to you, give them thirty coats of mail, and thirty camels. I asked: Messenger of Allah, is it a loan with a guarantee of its return, or a loan to be paid back? He replied: It is a loan to be paid back.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3559