كِتَابُ الْإِجَارَةِ کتاب: اجارے کے احکام و مسائل 37. باب فِيمَنِ اشْتَرَى عَبْدًا فَاسْتَعْمَلَهُ ثُمَّ وَجَدَ بِهِ عَيْبًا باب: ایک شخص نے غلام خریدا اور اسے کام پر لگایا پھر اس میں عیب کا پتہ چلا تو اس کی اجرت خریدار کے ذمہ ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خراج ضمان سے جڑا ہوا ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البیوع 53 (1285)، سنن النسائی/ البیوع 13 (4495)، سنن ابن ماجہ/التجارات 43 (2242، 2243)، (تحفة الأشراف: 16755)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/49، 208، 237) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: مثلاً خریدار نے ایک غلام خریدا اسی دوران غلام نے کچھ کمائی کی تو اس کا حق دار مشتری ہو گا بائع نہیں کیونکہ غلام کے کھو جانے یا بھاگ جانے کی صورت میں مشتری ہی اس کا ضامن ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن
(مخلد بن خفاف) غفاری کہتے ہیں میرے اور چند لوگوں کے درمیان ایک غلام مشترک تھا، میں نے اس غلام سے کچھ کام لینا شروع کیا اور ہمارا ایک حصہ دار موجود نہیں تھا اس غلام نے کچھ غلہ کما کر ہمیں دیا تو میرا شریک جو غائب تھا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور معاملہ ایک قاضی کے پاس لے گیا، اس قاضی نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کے حصہ کا غلہ اسے دے دوں، پھر میں عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے اسے بیان کیا، تو عروہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور ان سے وہ حدیث بیان کی جو انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی تھی آپ نے فرمایا: ”منافع اس کا ہو گا جو ضامن ہو گا ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 16755) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: عروہ نے اس حصہ دار سے یہ حدیث اس لئے بیان کی تاکہ وہ مخلد سے غلہ نہ لے کیونکہ غلام اس وقت مخلد کے ضمان میں تھا اس لئے اس کی کمائی کے مستحق بھی تنہا وہی ہوئے۔ قال الشيخ الألباني: حسن
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے ایک غلام خریدا، وہ غلام جب تک اللہ کو منظور تھا اس کے پاس رہا، پھر اس نے اس میں کوئی عیب پایا تو اس کا مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام بائع کو واپس کرا دیا، تو بائع کہنے لگا: اللہ کے رسول! اس نے میرے غلام کے ذریعہ کمائی کی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خراج (منافع) اس شخص کا حق ہے جو ضامن ہو“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ سند ویسی (قوی) نہیں ہے (جیسی سندوں سے کوئی حدیث ثابت ہوتی ہے)
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/ التجارات 43 (2243)، (تحفة الأشراف: 17243)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/80، 116) (حسن)» بما قبلہ (مسلم زنجی حافظہ کے کمزور راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: حسن لغيره
|