كِتَابُ الْإِجَارَةِ کتاب: اجارے کے احکام و مسائل 17. باب فِي خِيَارِ الْمُتَبَايِعَيْنِ باب: بیچنے اور خریدنے والے کے اختیار کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بائع اور مشتری میں سے ہر ایک کو بیع قبول کرنے یا رد کرنے کا اختیار ہوتا ہے جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں ۱؎ مگر جب بیع خیار ہو ۲؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 42 (2107)، 43 (2109)، 44 (2111)، 45 (2112)، 46 (2113)، صحیح مسلم/البیوع 10 (1531)، (تحفة الأشراف: 8341، 8282)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البیوع 26 (1245)، سنن ابن ماجہ/التجارات 17 (2181)، موطا امام مالک/البیوع 38 (79)، مسند احمد (2/4، 9، 52، 54، 73، 119، 135) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی عقد کو فسخ کرنے سے پہلے مجلس عقد سے اگر بائع اور مشتری دونوں جسمانی طور پر جدا ہوگئے تو بیع لازم ہو جائے گی اس کے بعد ان دونوں میں سے کسی کو فسخ کا اختیار حاصل نہیں ہو گا۔ ۲؎: یعنی خیار کی شرط کر لی ہو تو مجلس علیحدگی کے بعد بھی شروط کے مطابق خیار باقی رہے گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس میں یوں ہے: ”یا ان میں سے کوئی اپنے ساتھی سے کہے «اختر» یعنی لینا ہے تو لے لو، یا دینا ہے تو دے دو (پھر وہ کہے: لے لیا، یا کہے دے دیا، تو جدا ہونے سے پہلے ہی اختیار جاتا رہے گا)“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/ البیوع 43 (2109)، صحیح مسلم/ البیوع 10 (1531)، (تحفة الأشراف: 7512)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/4، 73) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خرید و فروخت کرنے والے دونوں جب تک جدا نہ ہوں معاملہ ختم کر دینے کا اختیار رکھتے ہیں، مگر جب بیع خیار ہو، (تو جدا ہونے کے بعد بھی واپسی کا اختیار باقی رہتا ہے) بائع و مشتری دونوں میں سے کسی کے لیے حلال نہیں کہ چیز کو پھیر دینے کے ڈر سے اپنے ساتھی کے پاس سے اٹھ کر چلا جائے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البیوع 26 (1247)، سنن النسائی/البیوع 9 (4488)، (تحفة الأشراف: 8797)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/183) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
ابوالوضی کہتے ہیں ہم نے ایک جنگ لڑی ایک جگہ قیام کیا تو ہمارے ایک ساتھی نے غلام کے بدلے ایک گھوڑا بیچا، اور معاملہ کے وقت سے لے کر پورا دن اور پوری رات دونوں وہیں رہے، پھر جب دوسرے دن صبح ہوئی اور کوچ کا وقت آیا، تو وہ (بیچنے والا) اٹھا اور (اپنے) گھوڑے پر زین کسنے لگا اسے بیچنے پر شرمندگی ہوئی (زین کس کر اس نے واپس لے لینے کا ارادہ کر لیا) وہ مشتری کے پاس آیا اور اسے بیع کو فسخ کرنے کے لیے پکڑا تو خریدنے والے نے گھوڑا لوٹانے سے انکار کر دیا، پھر اس نے کہا: میرے اور تمہارے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوبرزہ رضی اللہ عنہ موجود ہیں (وہ جو فیصلہ کر دیں ہم مان لیں گے) وہ دونوں ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اس وقت ابوبرزہ لشکر کے ایک جانب (پڑاؤ) میں تھے، ان دونوں نے ان سے یہ واقعہ بیان کیا تو انہوں نے ان دونوں سے کہا: کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ میں تمہارے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کر دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”دونوں خرید و فروخت کرنے والوں کو اس وقت تک بیع فسخ کر دینے کا اختیار ہے، جب تک کہ وہ دونوں (ایک مجلس سے) جدا ہو کر ادھر ادھر نہ ہو جائیں“۔ ہشام بن حسان کہتے ہیں کہ جمیل نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ تم دونوں جدا نہیں ہوئے ہو ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/التجارات 17 (2182)، (تحفة الأشراف: 11599)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/425) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: چونکہ یہ دونوں اسی جگہ ٹھہرے رہے جہاں آپس میں خرید وفروخت کا معاملہ ہوا تھا اور ایجاب و قبول کے بعد دونوں جسمانی طور پر جدا نہیں ہوئے بلکہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اپنا معاملہ بھی ایک ساتھ ہو کر لائے اسی لئے انہوں نے بیچنے والے کے حق میں فیصلہ دیا، اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے قول «ما لم يتفرقا» کو «تفرق بالأبدان» پر مجہول کرتے تھے نہ کہ تفرق بالا قوال پر۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
یحییٰ بن ایوب کہتے ہیں ابوزرعہ جب کسی آدمی سے خرید و فروخت کرتے تو اسے اختیار دیتے اور پھر اس سے کہتے: تم بھی مجھے اختیار دے دو اور کہتے: میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو آدمی جب ایک ساتھ ہوں تو وہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوں مگر ایک دوسرے سے راضی ہو کر ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البیوع 27 (1248)، (تحفة الأشراف: 14924)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/536) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: چاہے وہ کلاس کے دو ساتھی ہوں یا ٹرین و بس کے دو ہم سفر، یا بائع و مشتری ہوں یا کوئی اور انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ اس طرح ہونا چاہئے کہ وہ ایک دوسرے سے خوش ہوں۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوں دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے، پھر اگر دونوں سچ کہیں اور خوبی و خرابی دونوں بیان کر دیں تو دونوں کے اس خرید و فروخت میں برکت ہو گی اور اگر ان دونوں نے عیوب کو چھپایا، اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان دونوں کی بیع سے برکت ختم کر دی جائے گی“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے سعید بن ابی عروبہ اور حماد نے روایت کیا ہے، لیکن ہمام کی روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بائع و مشتری کو اختیار ہے جب تک کہ دونوں جدا نہ ہوں، یا دونوں تین مرتبہ اختیار کی شرط نہ کر لیں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 19 (2079)، 22 (2082)، 42 (2108)، 44 (2110)، 46 (2114)، صحیح مسلم/البیوع 1 (1532)، سنن الترمذی/البیوع 26 (1246)، سنن النسائی/البیوع 4 (4462)، (تحفة الأشراف: 3427)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/402، 403، 434) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|