كِتَابُ الْإِجَارَةِ کتاب: اجارے کے احکام و مسائل 43. باب فِي الرَّجُلِ يَأْكُلُ مِنْ مَالِ وَلَدِهِ باب: آدمی کا اپنی اولاد کے مال میں سے کھانا درست ہے۔
عمارہ بن عمیر کی پھوپھی سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: میری گود میں ایک یتیم ہے، کیا میں اس کے مال میں سے کچھ کھا سکتی ہوں؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”آدمی کی پاکیزہ خوراک اس کی اپنی کمائی کی ہے، اور اس کا بیٹا بھی اس کی کمائی ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأحکام 22 (1358)، سنن النسائی/البیوع 1 (4454)، سنن ابن ماجہ/التجارات 1 (2137)، 64 (2290)، (تحفة الأشراف: 15961، 17992)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/31، 42، 127، 162، 193، 220)، سنن الدارمی/البیوع 6 (2579) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے بلکہ بہترین کمائی ہے، تو ان کے مال میں سے کھاؤ“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حماد بن ابی سلیمان نے اس میں اضافہ کیا ہے کہ جب تم اس کے حاجت مند ہو (تو بقدر ضرورت لے لو) لیکن یہ زیادتی منکر ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 17992) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس مال ہے اور والد بھی ہیں اور میرے والد کو میرے مال کی ضرورت ہے ۱؎ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اور تمہارا مال تمہارے والد ہی کا ہے (یعنی ان کی خبرگیری تجھ پر لازم ہے) تمہاری اولاد تمہاری پاکیزہ کمائی ہے تو تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8670، 8675)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/التجارات64 (2292)، مسند احمد (2/179) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بعض نسخوں میں «يحتاج» ہے، یعنی: ان کے اخراجات میرے مال کو ختم کر دیں گے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
|