كِتَابُ الْإِجَارَةِ کتاب: اجارے کے احکام و مسائل 24. باب فِي وَضْعِ الْجَائِحَةِ باب: کھیت یا باغ پر کوئی آفت آ جائے تو خریدار کے نقصان کی تلافی ہونی چاہئے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کے پھلوں پر جسے اس نے خرید رکھا تھا کوئی آفت آ گئی چنانچہ اس پر بہت سارا قرض ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے خیرات دو“ تو لوگوں نے اسے خیرات دی، لیکن خیرات اتنی اکٹھا نہ ہوئی کہ جس سے اس کے تمام قرض کی ادائیگی ہو جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے قرض خواہوں سے) فرمایا: ”جو پا گئے وہ لے لو، اس کے علاوہ اب کچھ اور دینا لینا نہیں ہے ۱؎“ (یہ گویا مصیبت میں تمہاری طرف سے اس کے ساتھ رعایت و مدد ہے)۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 4 (1556)، سنن الترمذی/الزکاة 24 (655)، سنن النسائی/البیوع 28 (4534)، 93 (4682)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 25، (2356)، (تحفة الأشراف: 4270)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/56، 58) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جب حاکم موجودہ مال کو قرض خواہوں کے مابین بقدر حصہ تقسیم کر دے پھر بھی اس شخص کے ذمہ قرض خواہوں کا قرض باقی رہ جائے تو ایسی صورت میں قرض خواہ اسے تنگ کرنے، قید کرنے اور قرض کی ادائیگی پر مزید اصرار کرنے کے بجائے اسے مال کی فراہمی تک مہلت دے، حدیث کا مفہوم یہی ہے اور قرآن کی اس آیت: «وإن كان ذو عسرة فنظرة إلى ميسرة» کے مطابق بھی ہے کیونکہ کسی کے مفلس ہو جانے سے قرض خواہوں کے حقوق ضائع نہیں ہوتے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اپنے کسی بھائی کے ہاتھ (باغ کا) پھل بیچو پھر اس پھل پر کوئی آفت آ جائے (اور وہ تباہ و برباد ہو جائے) تو تمہارے لیے مشتری سے کچھ لینا جائز نہیں تم ناحق اپنے بھائی کا مال کس وجہ سے لو گے؟ ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 3 (1554)، سنن النسائی/البیوع 28 (4531)، سنن ابن ماجہ/التجارات 33 (2219)، (تحفة الأشراف: 2798)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/البیوع 22 (2598) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور اگر کچھ پھل بچ گیا اور کچھ نقصان ہو گیا تو نقصان کا خیال کر کے قیمت میں کچھ تخفیف کر دینی چاہئے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|