كِتَابُ الْإِجَارَةِ کتاب: اجارے کے احکام و مسائل 31. باب فِي بَيْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى باب: قبضہ سے پہلے غلہ بیچنا منع ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کھانے کا غلہ خریدے وہ اسے اس وقت تک نہ بیچے جب تک کہ اسے پورے طور سے اپنے قبضہ میں نہ لے لے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 51 (2126)، 54 (2133)، 55 (2136)، صحیح مسلم/البیوع 8 (1526)، سنن النسائی/البیوع 53 (4599)، سنن ابن ماجہ/التجارات 37 (2226)، (تحفة الأشراف: 8327)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع 19 (40)، مسند احمد (1/56، 63، 2/23، 46، 59، 64، 73، 79، 108، 111، 113)، سنن الدارمی/البیوع 26 (2602) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جمہور علماء کا کہنا ہے کہ یہ حکم ہر بیچی جانے والی شے کے لئے عام ہے لہٰذا خریدی گئی چیز میں اس وقت تک کسی طرح کا تصرف جائز نہیں جب تک کہ اسے پورے طور سے قبضہ میں نہ لے لیا جائے یا جہاں خریدا ہے وہاں سے اسے منتقل نہ کر لیا جائے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غلہ خریدتے تھے، تو آپ ہمارے پاس (کسی شخص کو) بھیجتے وہ ہمیں اس بات کا حکم دیتا کہ غلہ اس جگہ سے اٹھا لیا جائے جہاں سے ہم نے اسے خریدا ہے اس سے پہلے کہ ہم اسے بیچیں یعنی اندازے سے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 8 (1527)، سنن النسائی/البیوع 55 (4609)، سنن ابن ماجہ/التجارات 31 (2229)، (تحفة الأشراف: 8371)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع 54 (2131)، 56 (2137)، 72 (2166)، موطا امام مالک/البیوع 19 (42)، مسند احمد (1/56، 112، 2/7، 15، 21، 40، 53، 142، 150، 157) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ”لوگ اٹکل سے بغیر ناپے تولے (ڈھیر کے ڈھیر) بازار کے بلند علاقے میں غلہ خریدتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچنے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ اسے اس جگہ سے منتقل نہ کر لیں“ (تاکہ مشتری کا پہلے اس پر قبضہ ثابت ہو جائے پھر بیچے)۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/ البیوع 72 (2167)، سنن النسائی/ البیوع 55 (4610)، (تحفة الأشراف: 8154)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/15، 21) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلہ کو جسے کسی نے ناپ تول کر خریدا ہو، جب تک اسے اپنے قبضہ و تحویل میں پوری طرح نہ لے لے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/ البیوع 54 (4608)، (تحفة الأشراف: 7375)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/111) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو شخص گیہوں خریدے تو وہ اسے تولے بغیر فروخت نہ کرے“۔ ابوبکر کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیوں؟ تو انہوں نے کہا: کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ لوگ اشرفیوں سے گیہوں خریدتے بیچتے ہیں حالانکہ گیہوں بعد میں تاخیر سے ملنے والا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 54 (2132)، 55 (2135)، صحیح مسلم/البیوع 8 (1525)، سنن النسائی/البیوع 53 (4601)، (تحفة الأشراف: 5707)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/215، 221، 251، 270، 285، 356، 357، 368، 369) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مثلا: ایک آدمی نے سو روپیہ کسی کو غلہ کے لئے دیئے اور غلہ اپنے قبضہ میں نہیں لیا، پھر اس کو کسی اور سے ایک سو بیس روپیہ میں بیچ دیا جبکہ غلہ ابھی کسان یا فروخت کرنے والے کے ہاتھ ہی میں ہے، تو گویا اس نے سو روپیہ کو ایک سو بیس روپیہ میں بیچا اور یہ سود ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی گیہوں خریدے تو جب تک اسے اپنے قبضہ میں نہ کر لے، نہ بیچے“۔ سلیمان بن حرب نے اپنی روایت میں ( «حتى يقبضه» کے بجائے) «حتى يستوفيه» روایت کیا ہے۔ مسدد نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں کہ گیہوں کی طرح ہر چیز کا حکم ہے (جو چیز بھی کوئی خریدے جب تک اس پر قبضہ نہ کر لے دوسرے کے ہاتھ نہ بیچے) ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/ البیوع 55 (2135)، صحیح مسلم/ البیوع 8 (1525)، سنن الترمذی/ البیوع 56 (1291)، سنن النسائی/ البیوع 53 (4602)، سنن ابن ماجہ/ التجارات 37 (2227)، (تحفة الأشراف: 5736)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/215، 221، 270، 285) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مؤلف کی اگلی مرفوع حدیث نمبر (۳۴۹۹) اسی عموم پر دلالت کرتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں، میں نے لوگوں کو مار کھاتے ہوئے دیکھا ہے ۱؎ جب وہ گیہوں کے ڈھیر بغیر تولے اندازے سے خریدتے اور اپنے مکانوں پر لے جانے سے پہلے بیچ ڈالتے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/ المحاربین 29 (6852)، صحیح مسلم/ البیوع 8 (1527)، سنن النسائی/ البیوع 55 (4612)، (تحفة الأشراف: 6933)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/7، 150) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ وہ قبضہ میں لے کر بیچنے کے حکم کی خلاف ورزی کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے بازار میں تیل خریدا، تو جب اس بیع کو میں نے مکمل کر لیا، تو مجھے ایک شخص ملا، وہ مجھے اس کا اچھا نفع دینے لگا، تو میں نے ارادہ کیا کہ اس سے سودا پکا کر لوں اتنے میں ایک شخص نے پیچھے سے میرا ہاتھ پکڑ لیا، میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے کہا: جب تک کہ تم اسے جہاں سے خریدے ہو وہاں سے اٹھا کر اپنے ٹھکانے پر نہ لے آؤ نہ بیچنا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامان کو اسی جگہ بیچنے سے روکا ہے، جس جگہ خریدا گیا ہے یہاں تک کہ تجار سامان تجارت کو اپنے ٹھکانوں پر لے آئیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو دواد، (تحفة الأشراف: 2724)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/191) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن لغيره
|