كِتَاب اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ لباس اور زینت کے احکام The Book of Clothes and Adornment 26. باب تَحْرِيمِ تَصْوِيرِ صُورَةِ الْحَيَوَانِ وَتَحْرِيمِ اتِّخَاذِ مَا فِيهِ صُورَةٌ غَيْرُ مُمْتَهَنَةٍ بِالْفَرْشِ وَنَحْوِهِ وَأَنَّ الْمَلَائِكَةَ عَلَيْهِمْ السَّلَام لَا يَدْخُلُونَ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ وَلَا كَلْبٌ باب: جانور کی تصویر بنانا حرام ہے اور فرشتوں کا اس گھر میں داخل نہ ہونا جس گھر میں کتا اور تصویر ہو اس کا بیان۔ Chapter: The Prohibition Of Making Images Of Living Beings, And The Prohibition Of Using Images That Are Not Subjected To Disrespect In Furnishings And The Like; The Angels (Peace Be Upon Them) Do Not Enter A House In Which There Is An Image Or A Dog حدثني سويد بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم ، عن ابيه ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن عائشة انها، قالت: واعد رسول الله صلى الله عليه وسلم جبريل عليه السلام في ساعة ياتيه فيها، فجاءت تلك الساعة ولم ياته، وفي يده عصا، فالقاها من يده، وقال: " ما يخلف الله وعده ولا رسله " ثم التفت فإذا جرو كلب تحت سريره، فقال يا عائشة: " متى دخل هذا الكلب هاهنا؟ "، فقالت: والله ما دريت، فامر به فاخرج، فجاء جبريل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " واعدتني فجلست لك فلم تات "، فقال: " منعني الكلب الذي كان في بيتك إنا لا ندخل بيتا فيه كلب ولا صورة ".حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا، قَالَتْ: وَاعَدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فِي سَاعَةٍ يَأْتِيهِ فِيهَا، فَجَاءَتْ تِلْكَ السَّاعَةُ وَلَمْ يَأْتِهِ، وَفِي يَدِهِ عَصًا، فَأَلْقَاهَا مِنْ يَدِهِ، وَقَالَ: " مَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَا رُسُلُهُ " ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا جِرْوُ كَلْبٍ تَحْتَ سَرِيرِهِ، فَقَالَ يَا عَائِشَةُ: " مَتَى دَخَلَ هَذَا الْكَلْبُ هَاهُنَا؟ "، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا دَرَيْتُ، فَأَمَرَ بِهِ فَأُخْرِجَ، فَجَاءَ جِبْرِيلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَاعَدْتَنِي فَجَلَسْتُ لَكَ فَلَمْ تَأْتِ "، فَقَالَ: " مَنَعَنِي الْكَلْبُ الَّذِي كَانَ فِي بَيْتِكَ إِنَّا لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ ". عبد العزیز بن ابی حازم نے اپنے والد سے، انھوں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا کہ وہ ایک خاص گھڑی میں ان کے پاس آئیں گے، چنانچہ وہ گھڑی آگئی لیکن جبرئیل علیہ السلام نہ آئے۔ (اس وقت) آپ کے دست مبارک میں ایک عصاتھا۔آپ نے اسے اپنے ہا تھا سے (نیچے پھینکا اور فرمایا: "نہ اللہ تعا لیٰ اپنے وعدے کی خلا ف ورزی کرتا ہے نہ رسول (خلا ف ورزی کرتے ہیں۔) " جبریل امین علیہ السلام بھی وحی لے کر انبیا ء علیہ السلام کی طرف آنے والے اللہ کے رسول تھے) پھر آپ نے دھیان دیا تو ایک چار پا ئی کے نیچے کتے " کا ایک پلا تھا۔آپ نے فرما یا: " عائشہ رضی اللہ عنہا! یہ کتا یہاں کب گھسا؟"انھوں نے کہا: واللہ!مجھے بالکل پتہ نہیں چلا۔آپ نے حکم دیا تو اس (پلے) کو نکال دیا گیا، پھر جبریل علیہ السلام تشریف لے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما یا: " آپ نے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا میں آپ کی خاطر بیٹھا رہا لیکن آپ نہیں آئے۔"انھوں نے کہا آپ کے گھر میں جو کتا تھا، مجھے اس نے روک لیا ہم ایسے گھر میں دا خخل نہیں ہو تے جس میں کتا ہو۔نہ (اس میں جہاں تصویر ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مخصوص وقت میں آپ کے پاس آنے کا وعدہ کیا، وہ معین وقت آ گیا لیکن جبریل علیہ السلام نہ آئے، آپ کے ہاتھ میں ایک عصا (ڈنڈا) تھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ سے پھینک دیا اور فرمایا: ”اللہ اور اس کے فرستادے، اپنے وعدہ کی مخالفت نہیں کرتے۔“ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ کی یا نظر دوڑائی تو اپنی چارپائی کے نیچے کتے کا ایک پلا دیکھا اور پوچھا: ”اے عائشہ! یہ کتا یہاں کب آ گیا؟“ انہوں نے جواب دیا، اللہ کی قسم! مجھے پتہ نہیں ہے تو آپ کے حکم سے اس کو نکال دیا گیا تو جبریل علیہ السلام بھی آ گئے، اس پر آپ نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: ”آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تو میں آپ کے انتظار میں بیٹھا، لیکن آپ آئے ہی نہیں“ اس پر اس نے جواب دیا، مجھے اس کتے نے آنے سے روکا جو آپ کے گھر میں تھا، کیونکہ ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ہمیں وہب نے اسی سند کے ساتھ ابو حازم سے حدیث سنا ئی کہ جبرا ئیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ آپ کے پاس آئیں گے پھر حدیث بیان کی اور ابو حازم کے بیٹے کی طرح لمبی تفصیل نہیں بتا ئی۔ یہی حدیث امام صاحب ایک اور استاد کی سند سے بیان کرتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے پاس آنے کا وعدہ کیا، لیکن یہ مذکورہ بالا حدیث کی طرح مفصل نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني حرملة بن يحيي ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن ابن السباق ، ان عبد الله بن عباس ، قال: اخبرتني ميمونة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اصبح يوما واجما، فقالت ميمونة: يا رسول الله لقد استنكرت هيئتك منذ اليوم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن جبريل كان وعدني ان يلقاني الليلة فلم يلقني ام والله ما اخلفني "، قال: فظل رسول الله صلى الله عليه وسلم يومه ذلك على ذلك ثم وقع في نفسه جرو كلب تحت فسطاط لنا، فامر به فاخرج ثم اخذ بيده ماء، فنضح مكانه فلما امسى لقيه جبريل، فقال له: " قد كنت وعدتني ان تلقاني البارحة؟ "، قال: اجل، ولكنا لا ندخل بيتا فيه كلب ولا صورة، فاصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ، فامر بقتل الكلاب حتى إنه يامر بقتل كلب الحائط الصغير، ويترك كلب الحائط الكبير.حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ ابْنِ السَّبَّاقِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ ، قال: أَخْبَرَتْنِي مَيْمُونَةُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْبَحَ يَوْمًا وَاجِمًا، فَقَالَتْ مَيْمُونَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَقَدِ اسْتَنْكَرْتُ هَيْئَتَكَ مُنْذُ الْيَوْمِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ جِبْرِيلَ كَانَ وَعَدَنِي أَنْ يَلْقَانِي اللَّيْلَةَ فَلَمْ يَلْقَنِي أَمَ وَاللَّهِ مَا أَخْلَفَنِي "، قَالَ: فَظَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَهُ ذَلِكَ عَلَى ذَلِكَ ثُمَّ وَقَعَ فِي نَفْسِهِ جِرْوُ كَلْبٍ تَحْتَ فُسْطَاطٍ لَنَا، فَأَمَرَ بِهِ فَأُخْرِجَ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِهِ مَاءً، فَنَضَحَ مَكَانَهُ فَلَمَّا أَمْسَى لَقِيَهُ جِبْرِيلُ، فَقَالَ لَهُ: " قَدْ كُنْتَ وَعَدْتَنِي أَنْ تَلْقَانِي الْبَارِحَةَ؟ "، قَالَ: أَجَلْ، وَلَكِنَّا لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ، فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ، فَأَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ حَتَّى إِنَّهُ يَأْمُرُ بِقَتْلِ كَلْبِ الْحَائِطِ الصَّغِيرِ، وَيَتْرُكُ كَلْبَ الْحَائِطِ الْكَبِيرِ. عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بتا یا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فکر مندی کی حالت میں صبح کی۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آج دن (کے آغاز) سے آپ کی حالت معمول کے خلا ف دیکھ رہی ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آج رات مجھ سے ملیں گے لیکن وہ نہیں ملے۔بات یہ ہے کہ انھوں نے کبھی مجھ سے وعدہ خلا فی نہیں کی، "کہا: تو اس روز پورا دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت یہی رہی پھر ان کے دل میں کتے کے ایک پلے کا خیال بیٹھ گیا۔جو ہمارے (ایک بستر کے نیچے بن جا نے والے) ایک خیمہ (نما حصے) میں تھا۔آپ نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اسے نکا ل دیا گیا، پھر آپ نے اپنے دست مبارک سے پانی لیا اور اس جگہ پر چھڑک دیا۔جب شام ہو ئی تو جبرائیل علیہ السلام آ کر آپ سے ملے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھے کل رات ملیں گے؟انھوں نے کہا ہاں بالکل لیکن ہم ایسے گھر میں ادا خل نہیں ہو تے جس میں کتا یا تصویر ہو۔پھر جب صبح ہو ئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (آوارہ یا بے کا ر) کتوں کو مارنے دینے کا حکم دیا، یہاں تک کہ آپ باغ یا کھیت کے چھوٹے کتے کو بھی (جورکھوالی نہیں کر سکتا) مارنے کا حکم دے رہے تھے اور باغ کھیت کے بڑے کتے کو چھوڑ رہے تھے۔ (ایسے کتے گھروں سے باہر ہی رہتے ہیں اور واقعی رکھوالی کی ضرورت پو ری کرتے ہیں) حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صبح کے وقت غمزدہ تھے، حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں، میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میں صبح سے آپ کی ہئیت اوپری انوکھی دیکھ رہی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبریل علیہ السلام نے آج رات میرے ساتھ ملاقات کا وعدہ کیا تھا، لیکن ملا نہیں ہے، ہاں اللہ کی قسم! اس نے میرے ساتھ کبھی وعدہ خلافی نہیں کی۔“ تو دن بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں رہے، پھر آپ کے جی میں آیا، ہمارے خیمے کے نیچے کتے کا پلا ہے تو آپ کے حکم سے اسے نکال دیا، پھر آپ نے بذات خود پانی لے کر اس کی جگہ پر چھڑکا تو جب شام ہوئی، جبریل علیہ السلام آپصلی اللہ علیہ وسلم سے ملے، آپ نے ان سے پوچھا ”آپ نے کل شام ملنے کا وعدہ کیا تھا۔“ انہوں نے کہا، ہاں، لیکن ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے، جس میں کتا یا تصویر ہو تو اس دن صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا، حتی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے باغ کے کتے کو بھی قتل کرنے کا حکم دیتے اور بڑے باغ کے کتے کو چھوڑ دیتے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سفیان بن عیینہ نے زہری سے، انھوں نے عبید اللہ سے، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " فرشتے اس گھر میں دا خل نہیں ہو تے جس میں کتا ہو نہ (اس گھر میں جس میں) کوئی تصویر ہو۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے، جس میں کتا یا تصویر ہو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یو نس نے مجھے ابن شہا ب سے، خبر دی انھوں نے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ سئے روایت کی کہ انھوں نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فر ما رہے تھے: " فرشتے اس گھر میں دا خل نہیں ہو تے جس میں کتا ہو نہ (اس گھر میں جس میں) کوئی تصویر ہو۔" حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے، جس میں کتا یا تصویر ہو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
معمر نے زہری سے اسی سند کے ساتھ یو نس کی حدیث کے مانند اور سند میں خبر دینے کی صرا حت کرتے ہو ئے روایت کی۔ یہی روایت امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن بكير ، عن بسر بن سعيد ، عن زيد بن خالد ، عن ابي طلحة ، صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم انه، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الملائكة لا تدخل بيتا فيه صورة "، قال بسر: ثم اشتكى زيد بعد فعدناه، فإذا على بابه ستر فيه صورة، قال: فقلت لعبيد الله الخولاني ربيب ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: الم يخبرنا زيد عن الصور يوم الاول، فقال عبيد الله: الم تسمعه حين، قال: إلا رقما في ثوب.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ بُكَيْرٍ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ ، صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَا تَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ "، قَالَ بُسْرٌ: ثُمَّ اشْتَكَى زَيْدٌ بَعْدُ فَعُدْنَاهُ، فَإِذَا عَلَى بَابِهِ سِتْرٌ فِيهِ صُورَةٌ، قَالَ: فَقُلْتُ لِعُبَيْدِ اللَّهِ الْخَوْلَانِيِّ رَبِيبِ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَمْ يُخْبِرْنَا زَيْد عَنِ الصُّوَرِ يَوْمَ الْأَوَّلِ، فَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: أَلَمْ تَسْمَعْهُ حِينَ، قَالَ: إِلَّا رَقْمًا فِي ثَوْبٍ. لیث نے ہمیں بکیر سے حدیث سنا ئی انھوں نے بسربن سعید سے، انھوں نے زید بن خالد سے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابو طلحہ سے روایت کی کہ انھوں نے کہا: بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " فرشتے اس گھر میں دا خل نہیں ہو تے جس میں کوئی تصویر ہو۔" بسر نے کہا: پھر اس اس کے بعد حضرت زید بن خالد بیمار ہو گئے۔ہم ان کی عیادت کے لیے گئے تو (دیکھا) ان کے دروازے پر ایک پردہ تھا جس میں تصویر (بنی ہو ئی) تھی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے لے پا لک عبید اللہ خولا نی سے کہا: کیا حضرت زید نے پہلےدن (جب ملا قات ہو ئی تھی۔) ہمیں تصویر (کی ممانعت) کے بارے میں خبر (حدیث) بیان نہیں کی تھی؟ تو عبید اللہ نے کہا: جب انھوں نے "کپڑے پربنے ہو ئے نقش کے سوا"کے الفاظ کہے تھے تو کیا تم نے نہیں سنے تھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے، جس میں تصویر ہو۔“ بسر بیان کرتے ہیں، اس کے بعد زید (جس نے مجھے روایت سنائی تھی) بیمار ہو گئے تو ہم ان کی بیمار پرسی کے لیے گئے تو ان کے دروازہ پر ایک پردہ پایا، جس میں تصویر تھی تو میں نے (اپنے ساتھی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پروردہ عبیداللہ خولانی سے پوچھا، کیا زید نے گزشتہ دنوں ہمیں تصویر کے بارے میں حدیث نہیں سنائی تھی؟ تو عبیداللہ نے کہا، کیا تم نے ان سے یہ بات نہیں سنی تھی، ”مگر کپڑے میں منقش۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی کہ انھیں بکیر بن اشج نے حدیث سنا ئی، انھیں بسر بن سعید نے حدیث سنائی کہ زید بن خالد جہنی نے انھیں حدیث سنائی اور (اس وقت) بسر کے ساتھ عبید اللہ خولا نی تھے۔ (کہا) حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے انھیں یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " فرشتے اس گھر میں دا خل نہیں ہو تے جس میں تصویر ہو۔بسر نے کہا: پھر حضرت زید بن خالد بیمار ہو گئے، ہم ان کی عیا دت کے لیے گئے تو ہم نے ان گھر میں ایک پردہ دیکھا جس میں تصویریں تھیں میں نے عبید اللہ خولا نی سے کہا: کیا (حضرت زید بن خالد نے) ہمیں تصاویر کے متعلق حدیث بیان نہیں کی تھی؟ (عبید اللہ نے) کہا: انھوں نے (ساتھ ہی یہ) کہا تھا: "سوائے کپڑے کے نقش کے "کیا آپ نے نہیں سنا تھا "میں نے کہا: نہیں انھوں نے کہا: کیوں نہیں! انھوں نے اس کا ذکر کیا تھا۔ بسر بن سعید بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث سنائی اور میرے ساتھ عبیداللہ خولانی بھی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے، جس میں تصویر ہو۔“ بسر کہتے ہیں، حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ بیمار ہو گئے تو ہم ان کی عیادت کے لیے گئے تو ہم نے ان کے گھر میں پردہ دیکھا، جس میں تصاویر تھیں تو میں نے عبیداللہ خولانی سے کہا، کیا انہوں نے ہمیں تصاویر کے بارے میں حدیث نہیں سنائی تھی؟ اس نے جواب دیا، انہوں نے کہا تھا، مگر کپڑے میں نقش و نگار، کیا تو نے یہ بات نہیں سنی؟ میں نے کہا، نہیں، اس نے کہا، کیوں نہیں، حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ بات بیان کی تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
بنو نجار کے آزاد کردہ غلا م ابو حباب سعید بن یسار نے حضرت زید بن خالد جہنی سے، انھوں نے حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے "اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہو تے جس میں کتا ہو، نہ (اس میں جہاں) مجسمے ہوں۔" حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
قال: فاتيت عائشة ، فقلت: إن هذا يخبرني، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا تماثيل "، فهل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر ذلك؟، فقالت: لا، ولكن ساحدثكم ما رايته، فعل رايته خرج في غزاته، فاخذت نمطا، فسترته على الباب، فلما قدم فراى النمط عرفت الكراهية في وجهه، فجذبه حتى هتكه او قطعه، وقال: " إن الله لم يامرنا ان نكسو الحجارة والطين "، قالت: فقطعنا منه وسادتين، وحشوتهما ليفا فلم يعب ذلك علي.قَالَ: فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ ، فَقُلْتُ: إِنَّ هَذَا يُخْبِرُنِي، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا تَمَاثِيلُ "، فَهَلْ سَمِعْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ ذَلِكَ؟، فَقَالَتْ: لَا، وَلَكِنْ سَأُحَدِّثُكُمْ مَا رَأَيْتُهُ، فَعَلَ رَأَيْتُهُ خَرَجَ فِي غَزَاتِهِ، فَأَخَذْتُ نَمَطًا، فَسَتَرْتُهُ عَلَى الْبَابِ، فَلَمَّا قَدِمَ فَرَأَى النَّمَطَ عَرَفْتُ الْكَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِهِ، فَجَذَبَهُ حَتَّى هَتَكَهُ أَوْ قَطَعَهُ، وَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَأْمُرْنَا أَنْ نَكْسُوَ الْحِجَارَةَ وَالطِّينَ "، قَالَتْ: فَقَطَعْنَا مِنْهُ وِسَادَتَيْنِ، وَحَشَوْتُهُمَا لِيفًا فَلَمْ يَعِبْ ذَلِكَ عَلَيَّ. ۔ (سعید بن یسار نے) کہا: (یہ حدیث سن کر) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور کہا: انھوں (ابو طلحہ رضی اللہ عنہ) نےکہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہو تے جس میں کتا ہو۔نہ (اس میں (جہاں کسی طرح کی تصویر یں ہوں۔"کیا آپ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی جو انھوں نے بیان کی؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نہیں۔ (میں نے اس طرح یہ الفاظ نہیں سنے) لیکن میں تمھیں ہو بتا تی ہو ں جو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہو ئے دیکھا۔میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنے غزوے میں تشریف لے گئے تو میں نے نیچے بچھانے کا ایک مو ٹا ساکپڑا لیا اور دروازے پر اس کا پردہ بنادیا جب آپ آئے اور آپ نے وہ کپڑا دیکھا تو میں نے آپ کے چہرہ انور پر ناپسندیدگی کے آثار محسوس کیے، پھر آپ نے اسے پکڑ کر کھینچا اور اسے پھاڑ دیا اس کے (دو ٹکرے کر دیے اور فرما یا: اللہ نے ہمیں پتھروں اور مٹی کو کپڑے پہنانے کا حکم نہیں دیا۔" (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: پھر ہم نے اس کپڑے میں سے دو تکیے (بنانے کے لیے دو ٹکڑے) کاٹ لیے اور میں نے ان دونوں کے اندر کھجوروں کی چھا ل بھر دی۔آپ نے اس کے سبب سے مجھ پر کوئی اعترا ض نہیں فرمایا حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے کہا، اس ابو طلحہ نے مجھے یہ حدیث سنائی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر و مجسمے ہوں۔“ تو کیا آپ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے؟ انہوں نے کہا، نہیں، لیکن میں تمہیں ابھی آپ کا وہ واقعہ سناتی ہوں، جو میرا چشم دید ہے، میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنے کسی غزوہ میں چلے گئے تو میں نے ایک جھول دار پردہ لیا اور اسے دروازہ کا پردہ بنا دیا تو جب آپ تشریف لائے اور اس زین پوش کو دیکھا تو میں نے آپ کے چہرے پر ناراضگی کے آثار دیکھے تو آپ نے اس کو کھینچ کر پھاڑ ڈالا، یا چیز ڈالا اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہمیں، پتھروں اور مٹی کو کپڑے پہننانے کا حکم نہیں دیا“ وہ بیان کرتی ہیں، ہم نے اس سے دو تکیے بنا لیے اور میں نے ان میں کھجور کی چھال بھر دی تو اس پر آپ نے اعتراض نہیں فرمایا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
اسماعیل بن ابراہیم نے داود سے، انھوں نے عزرہ سے، انھوں نے حمید بن عبدالرحمان سے، انھوں نے سعد بن ہشام سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: ہمارے ہاں ایک پردہ تھا جس میں پرندے کی تصویر تھی، جب کوئی شخص اندر آتا یہ تصویر اس کےسامنے آجاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "اس پردے کو ہٹا دو کیونکہ میں جب بھی اندر آتا ہوں۔اور اس پردے کو دیکھتا ہوں تو دنیا کو یاد کرتا ہوں۔"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہمارے پاس ایک چادر تھی، ہم کہتےتھے کہ اس کے کناروں پر سلا ہوا کپڑا ریشم ہے، ہم اس چادر کو پہنتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، ہمارا ایک پردہ تھا، جس میں پرندے کی شبیہ تھی اور داخل ہونے والے کی نظر سب سے پہلے اس پر پڑتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”اس کو یہاں سے ہٹا دو، کیونکہ میں جب داخل ہوتا ہوں اور اس پر میری نظر پڑتی ہے، مجھے دنیا یاد آ جاتی ہے۔“ وہ بیان کرتی ہیں اور ہمارے پاس ایک چادر تھی، ہم کہتے تھے، اس کے نقش و نگار ریشمی ہوں اور ہم اس کو پہنتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
محمد بن مثنیٰ نے کہا: ہمیں ابن ابی عدی اور عبدالاعلیٰ نے اسی سند کے ساتھ (داود سے) حدیث بیان کی، ابن مثنیٰ نے کہا: اور اس میں انہوں نے۔۔۔ان کی مراد عبدالاعلیٰ سے ہے۔یہ اضافہ کیا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس چادر کو کاٹنے کا حکم نہیں دیا۔ امام صاحب یہی حدیث ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں اور اس میں یہ اضافہ ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چادر کو کاٹنے کا حکم نہیں دیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو اسامہ نے ہشام (بن عروہ) سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے واپس آئے، میں نےروئیں دار کپڑا دروازے کا پردہ بنایا ہوا تھا جس پر پروں والے گھوڑوں کی تصویریں تھیں تو آپ نے مجھے (اتار نے کا) حکم دیا تو میں نے اس کو اتاردیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے واپس آئے اور میں اپنے دروازے پر ایک پردہ ڈال چکی تھی، جس میں پروں والے گھوڑے کی شبیہ تھی تو آپ نے مجھے اس کے اتارنے کا حکم دیا تو میں نے اسے اتار دیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبدہ اور وکیع نے اسی سند کے ساتھ ہمیں (ہشام بن عروہ سے) حدیث بیان کی، عبدہ کی حدیث میں "آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے آئے"کے الفاظ نہیں ہیں۔ امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے یہی روایت بیان کرتے ہیں اور عبدہ کی حدیث میں سفر سے واپسی کا ذکر نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابراہیم بن سعد نے زہری سے، انہوں نے قاسم بن محمد سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے اور میں نے ایک موٹے سے کپڑے کا پردہ لٹکایا ہوا تھا، اس پر تصویر تھی تو آپ کے چہرہ انور کا رنگ بدل گیا۔پھر آپ نے پردہ کو پکڑا اور پھاڑ دیا، پھر فرمایا؛"قیامت کے دن شدید ترین عذاب میں پڑے ہوئے لوگوں میں سے وہ (بھی) ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی (جاندار) اشیاء کے جیسی (مشابہ) بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے اور میں نے ایک باریک پردہ تانا ہوا تھا، جس میں تصویر تھی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس پردہ کو پکڑ کو چاک کر دیا، پھر فرمایا: ”قیامت کے دن جو لوگ سب سے سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے ان میں وہ لوگ جو اللہ کی تخلیق کی مشابہت کرتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یونس نے ابن شہاب سے، انھوں نے قاسم بن محمد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے انھیں حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لائے، (آگے اسی طرح) جس طرح ابراہیم بن سعد کی حدیث ہے، البتہ انھوں نے کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس (پردے) کی طرف لپکے اور اپنے ہاتھ سے اس کو پھاڑ دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث ہے، مگر اس میں یہ الفاظ ہیں، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم پردے کی طرف جھکے اور اسے اپنے ہاتھ سے پھاڑ دیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سفیان بن عینیہ اور معمر نے زہری سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، ان دونوں کی حدیث میں ہے: "لوگوں میں سے شدید ترین عذاب میں پڑے ہوئے (وہ لوگ ہوں گے) "انھوں نے" میں سے" کے الفاظ بیان نہیں کیے۔ مصنف یہی روایت اپنے پانچ اساتذہ کی دو سندوں سے بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں أشد الناس
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو بکر بن ابی شیبہ اور زہیر بن حرب نے کہا: ہمیں سفیان بن عینیہ نے عبدالرحمان بن قاسم سے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ کہہ رہی تھیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے اور میں نے اپنے طاق پر موٹا ساکپڑے کا پردہ لٹکایا ہوا تھا جس میں تصویریں تھیں۔جب آپ نے اس کے پردے کو دیکھا تو اس کو پھاڑ ڈالاآپ کے چہرہ انور کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ نے فرمایا؛"عائشہ! رضی اللہ عنہا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے شدید عذاب کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی مشابہت کریں گے۔" حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہم نے اس پردے کو کاٹ دیااور اس سے ایک یا دو تکیے بنا لیے (ایک یا دو کے بارے میں شک راوی کی طرف سے ہے۔) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں نے ایک طاق یا مچان پر ایسا پردہ ڈالا ہوا تھا، جس میں تصاویر تھیں تو جب آپ نے اسے دیکھا، اسے پھاڑ دیا اور آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور فرمایا: ”اے عائشہ! قیامت کے دن اللہ کے ہاں، سب سے سخت عذاب ان لوگوں کو ہو گا، جو اللہ کی تخلیق کی مشابہت اختیار کرتے ہیں“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، ہم نے اس کو پھاڑ کر، اس سے ایک یا دو تکیے بنا لیے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے عبدالرحمان بن قاسم سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے قاسم سے سنا، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کررہے تھے کہ ان کے پاس ا یک کپڑا تھا جس میں تصویریں تھیں، وہ طاق پر لٹکا ہوا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرف رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اس کو مجھ سے ہٹا دو۔"تو میں نے اس کو ہٹا دیا اور اسکے تکیے بنالیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ان کے پاس ایک کپڑا تھا، جس میں تصویریں تھیں، اسے طاق پر لٹکایا گیا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرف نماز پڑھتے تھے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے مجھ سے دور کر دیجئے“ تو میں نے اس کو ہٹا کر اس کے تکیے بنا لیے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سعید بن عامر اور ابو عامر عقدی نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی۔ امام صاحب یہی روایت اور اساتذہ سے بھی بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وکیع نے سفیان سے، انھوں نے عبدالرحمان بن قاسم سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، اور میں نے ایک بچھانے والے کپڑے کا پردہ بنایا ہواتھا، اس میں تصویریں تھیں، آپ نے اس کو ہٹوادیا اور میں نے اس سے دو تکیے بنا لیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے اور میں نے ایک باتصاویر پردہ تانا ہوتا تھا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ہٹا دیا تو اس سے میں نے دو تکیے بنا لیے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا هارون بن معروف ، حدثنا ابن وهب ، حدثنا عمرو بن الحارث ، ان بكيرا حدثه ان عبد الرحمن بن القاسم حدثه، ان اباه حدثه، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، " انها نصبت سترا فيه تصاوير، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنزعه، قالت: فقطعته وسادتين "، فقال رجل في المجلس حينئذ يقال له ربيعة بن عطاء مولى بني زهرة: افما سمعت ابا محمد يذكر ان عائشة، قالت: فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يرتفق عليهما، قال ابن القاسم: لا، قال: لكني قد سمعته يريد القاسم بن محمد.وحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ بُكَيْرًا حَدَّثَهُ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " أَنَّهَا نَصَبَتْ سِتْرًا فِيهِ تَصَاوِيرُ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَعَهُ، قَالَتْ: فَقَطَعْتُهُ وِسَادَتَيْنِ "، فَقَالَ رَجُلٌ فِي الْمَجْلِسِ حِينَئِذٍ يُقَالُ لَهُ رَبِيعَةُ بْنُ عَطَاءٍ مَوْلَى بَنِي زُهْرَةَ: أَفَمَا سَمِعْتَ أَبَا مُحَمَّدٍ يَذْكُرُ أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْتَفِقُ عَلَيْهِمَا، قَالَ ابْنُ الْقَاسِمِ: لَا، قَالَ: لَكِنِّي قَدْ سَمِعْتُهُ يُرِيدُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ. بکیر نے کہا: عبدالرحمان بن قاسم نے انھیں حدیث بیان کی، انھیں ان کے والد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ انھوں نے ایک پردہ لٹکا رکھاتھا جس میں تصاویر تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے تو آپ نے اس پردے کو اتار دیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اس کو کاٹ کر دو تکیے بنالیے، (جب یہ حدیث بیان کی جارہی تھی) تواس مجلس میں ایک شخص نے، جو ربیعہ بن عطاء کہلاتے تھے، بنو زہری کے مولیٰ تھے، کہا: کیا آپ نے ابو محمد (قاسم بن محمد) کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں (تکیوں) کے ساتھ ٹیک لگاتے تھے؟تو (عبدالرحمان) ابن قاسم نے کہا: نہیں، اس نے کہا: لیکن میں نے یقیناً (ان سے) یہ بات سنی تھی۔ان کی مراد (ان کےوالد) قاسم بن محمد سے تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس نے تصویروں والا ایک پردہ لٹکایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھینچ ڈالا تو میں نے کاٹ کر اس کے دو تکیے بنا لیے تو اس وقت مجلس میں ایک آدمی جسے ربیعہ بن عطاء کہا جاتا تھا اور بنو زہرہ کا آزاد کردہ غلام تھا، نے کہا، کیا تو نے ابو محمد کو یہ بیان کرتے نہیں سنا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر آرام فرماتے تھے؟ ابن قاسم نے کہا، نہیں، لیکن یہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا يحيي بن يحيي ، قال: قرات على مالك ، عن نافع ، عن القاسم بن محمد ، عن عائشة : " انها اشترت نمرقة فيها تصاوير، فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم قام على الباب فلم يدخل، فعرفت او فعرفت في وجهه الكراهية، فقالت: يا رسول الله اتوب إلى الله وإلى رسوله فماذا اذنبت؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما بال هذه النمرقة؟ "، فقالت: اشتريتها لك تقعد عليها وتوسدها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن اصحاب هذه الصور يعذبون ويقال لهم احيوا ما خلقتم "، ثم قال: " إن البيت الذي فيه الصور لا تدخله الملائكة ".حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قال: قرأت على مالك ، عن نافع ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ : " أَنَّهَا اشْتَرَتْ نُمْرُقَةً فِيهَا تَصَاوِيرُ، فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ عَلَى الْبَابِ فَلَمْ يَدْخُلْ، فَعَرَفْتُ أَوْ فَعُرِفَتْ فِي وَجْهِهِ الْكَرَاهِيَةُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ فَمَاذَا أَذْنَبْتُ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا بَالُ هَذِهِ النُّمْرُقَةِ؟ "، فَقَالَتْ: اشْتَرَيْتُهَا لَكَ تَقْعُدُ عَلَيْهَا وَتَوَسَّدُهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَصْحَابَ هَذِهِ الصُّوَرِ يُعَذَّبُونَ وَيُقَالُ لَهُمْ أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ "، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الْبَيْتَ الَّذِي فِيهِ الصُّوَرُ لَا تَدْخُلُهُ الْمَلَائِكَةُ ". اما مالک رحمۃ اللہ علیہ نے نافع سے، انھوں نے قاسم بن محمد سے، انھوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی کہ انھوں نے ایک (چھوٹا سا بیٹھنے کے لئے) گدا خریدا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (گدے) کو دیکھا تو آ پ دروازے پر ٹھہر گئے اور اندر داخل نہ ہوئے، میں نے آپ کے چہر ے پر ناپسندیدگی کے آثار محسوس کیے، (یا کہا:) آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی کی آثار محسوس ہوئے، تو انھوں) (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں (سچے دل سے) اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے توبہ کرتی ہوں۔میں نے کیاگناہ کیا ہے؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ گدا کیسا ہے؟"انھوں نے کہا: میں نے یہ آپ کے لئے خرید اہے۔تا کہ آپ اس پر بیٹھیں اور ٹیک لگائیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان تصویروں (کےبنانے) والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائےگا اوران سے کہا جائے گا: تم نے جو (صورتیں) تخلیق کی ہیں، ان کو زندہ کرو۔"پھر فرمایا؛"جس گھر میں تصویریں ہوں ان میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس نے ایک تصویروں والا تکیہ خریدا تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا، دروازہ پر کھڑے ہو گئے، اندر تشریف نہیں لائے تو میں نے محسوس کر لیا، یا آپ کے چہرے پر کبیدگی کے آثار محسوس ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! میں اللہ او اس کے رسول کی طرف لوٹتی ہوں، مجھ سے کیا گناہ سرزد ہوا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ گدا، تکیہ کس لیے ہے؟“ تو میں نے عرض کیا، میں نے اسے آپ کے لیے خریدا ہے، آپ اس پر بیٹھیں اور اس کا سہارا لیں، تکیہ بنائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تصویریں بنانے والے، ان کو عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا، اپنی مخلوق کو زندہ کرو“ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس گھر میں تصویریں ہوں، اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
قتیبہ اور ابن رمح نے لیث سے حدیث بیان کی، اسحاق بن ابراہیم نے کہا: ہمیں ثقفی نے خبر دی، کہا: ہمیں ایوب نے حدیث بیان کی، عبدالوارث بن عبدالصمد نےکہا: ہمیں میرے والد نے میرے دادا کے واسطے سے ایوب سے حدیث بیان کی، ہارون بن سعید ایلی نے کہا: ہمیں ابن وہب نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے اسامہ بن زید نے خبر دی، ابو بکر اسحاق نے کہا: ہمیں ابو سلمہ خزاعی نے حدیث بیا ن کی، کہا: ہمیں ماجثون کے بھتیجے عبدالعزیز نے عبیداللہ بن عمر سے خبر دی، ان سب (لیث بن سعد، ایوب، اسامہ بن زید اور عبیداللہ بن عمر) نے نافع سے، انھوں نے قاسم سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث روایت کی، ان میں سے بعض کی حدیث بعض کی نسبت زیادہ مکمل ہے اور (ابو سلمہ خزاعی نے) ابن ماجثون کے بھتیجے سے روایت کردہ حدیث میں یہ اضافہ کیا: انھوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے فرمایا: میں نے اس گدے کو لے کر اس کے دو تکیے بنا لیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں ان کے ساتھ ٹیک لگاتے تھے۔ امام صاحب مختلف اساتذہ کی پانچ سندوں سے نافع ہی کی سند سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں اور بعض نے تفصیل زیادہ بیان کی ہے، ماجشون کے بھتیجے کی روایت میں یہ اضافہ ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے اس گدے کو اٹھایا اور اس کے دو تکیے بنا دیے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم گھر پر، ان کا سہارا لیتے تھے، یا ان پر آرام کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبید اللہ نے نافع سے حدیث بیان کی، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں خبر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " جو لو گ تصویریں بنا تے ہیں انھیں قیامت کے دن عذاب دیا جا ئے گا، ان سے کہا جا ئے گا جن کو تم نے تخلیق کیا (اب ان کو زندہ کرو۔" حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو تصویریں بناتے ہیں، انہیں قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، ان سے کہا جائے گا، جن کی تم نے تخلیق کی تھی، ان کو زندہ کرو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ایو ب نے نافع سے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، اسی حدیث کے مانند روایت کی، جس طرح عبید اللہ نے نافع سے، انھوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ مصنف یہی روایت اپنے مختلف اساتذہ کی تین سندوں سے بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عثمان بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں جریر نے اعمش سے حدیث بیان کی، ابو سعید اشج نے کہا: ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں اعمش نے ابو ضحیٰ سے حدیث بیان کی، انھوں نے مسروق سے انھوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعد رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " یقیناً قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب میں (گرفتار تصویر بنانے والے ہو ں گے۔"اشج نے یقیناً " (کا لفظ) بیان نہیں کیا۔ حضرت عبداللہ یعنی ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ، قیامت کے دن تصویر بنانے والوں کو، لوگوں میں سے سخت ترین عذاب ہو گا۔“ اشج کی روایت میں أشد
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یحییٰ بن یحییٰ ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب سب نے ابو معاویہ سے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے حدیث بیان کی، (ابو معاویہ اور سفیان) دونوں نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، ابو معاویہ سے یحییٰ اور ابو کریب روایت میں ہے، "قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب پانے والوں میں سے تصویر بنا نے والے ہیں۔"اور سفیان کی حدیث وکیع کی حدیث کی طرح ہے۔ یہی روایت امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، ان میں سے دو کی روایت میں یہ الفاظ ہیں ”اہل نار میں سے سخت ترین عذاب، قیامت کے دن تصویر سازوں کو ہو گا۔“ یا ”مصور قیامت کے دن سخت ترین عذاب والے لوگوں میں سے ہوں گے“ اور چوتھے استاد کی روایت وکیع کی مذکورہ بالا روایت کی طرح ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
منصور نے مسلم بن صبیح (ابو ضحیٰ) سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں مسروق کے ساتھ ایک مکا ن میں تھا جس میں حضرت مریم علیہ السلام کی تصاویر تھیں (یا مجسمے تھے) مسروق نے کہا: یہ کسریٰ کی تصاویر ہیں؟ میں نے کہا: نہیں یہ مریم علیہ السلام کی تصاویرہیں۔ مسروق نے کہا: میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: "قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب تصویریں (یا مجسمے) بنا نے والوں کو ہو گا۔" مسلم بن صبیح بیان کرتے ہیں کہ میں مسروق کے ساتھ ایک ایسے گھر میں تھا، جس میں مریم کی تصویریں یا مورتیاں تھیں تو مسروق نے کہا، یہ کسریٰ کی تصاویر ہیں تو میں نے کہا، نہیں، یہ مریم کی تصاویر ہیں تو مسروق نے کہا، ہاں، میں نے عبداللہ بن مسعود ؓ کو یہ کہتے سنا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن شدید ترین عذاب والے لوگ مصور ہوں گے۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
قال مسلم: قرات على نصر بن علي الجهضمي ، عن عبد الاعلى بن عبد الاعلى ، حدثنا يحيي بن ابي إسحاق ، عن سعيد بن ابي الحسن ، قال: جاء رجل إلى ابن عباس ، فقال: إني رجل اصور هذه الصور فافتني فيها؟ فقال له: ادن مني فدنا منه، ثم قال: ادن مني فدنا حتى وضع يده على راسه، قال: انبئك بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " كل مصور في النار يجعل له بكل صورة صورها نفسا فتعذبه في جهنم "، وقال: إن كنت لا بد فاعلا فاصنع الشجر، وما لا نفس له فاقر به نصر بن علي.قَالَ مُسْلِم: قَرَأْتُ عَلَى نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ ، قال: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ: إِنِّي رَجُلٌ أُصَوِّرُ هَذِهِ الصُّوَرَ فَأَفْتِنِي فِيهَا؟ فَقَالَ لَهُ: ادْنُ مِنِّي فَدَنَا مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: ادْنُ مِنِّي فَدَنَا حَتَّى وَضَعَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ، قَالَ: أُنَبِّئُكَ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " كُلُّ مُصَوِّرٍ فِي النَّارِ يَجْعَلُ لَهُ بِكُلِّ صُورَةٍ صَوَّرَهَا نَفْسًا فَتُعَذِّبُهُ فِي جَهَنَّمَ "، وقَالَ: إِنْ كُنْتَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَاصْنَعِ الشَّجَرَ، وَمَا لَا نَفْسَ لَهُ فَأَقَرَّ بِهِ نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ. امام مسلم نے کہا: میں نے نصر بن علی جہضمی کے ساتھ عبد الاعلی بن عبد الاعلیٰ سے حدیث پڑھی کہ ہمیں یحییٰ بن ابی اسحٰق نے (حضرت حسن بصری کے بھا ئی) سعید بن ابو حسن سے روایت بیان کی، کہا: ایک شخص حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اس نے کہا: میں یہ (جانداروں کی) تصویر یں بناتا ہوں، آپ مجھے ان کے متعلق فتویٰ دیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے قریب آؤ وہ قریب ہوا انھوں نے پھر فرما یا میرے قریب آؤوہ (مزید قریب آیا آپ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: " میں تم کو وہ بات بتاتاہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: "ہر تصویر بنانے والا جہنم میں ہو گا اور اس کی بنا ئی ہو ئی تصویر کے بدلے میں اللہ تعا لیٰ ایک جاندار بنائے گا وہ اسے جہنم میں عذاب دے گا۔" اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم نے ضرور (یہی کا م) کرنا ہے تو درختوں کی اور جن چیزوں میں جان نہیں ان کی تصویر بنا ؤ۔نصر بن علی نے (جب میں نے ان کے سامنے یہ حدیث پڑھی) اس کا اقرار کیا (کہ انھوں نے عبد الاعلیٰ بن عبدالاعلیٰ سے اسی طرح روایت کی۔) سعید بن ابی الحسن بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا، میں ایسا آدمی ہوں کہ میں یہ تصویریں بناتا ہوں تو آپ مجھے ان کے بارے میں فتویٰ دیں تو انہوں نے اس سے کہا، میرے قریب ہو جا تو وہ ان کے قریب ہو گیا، پھر انہوں نے کہا، میرے قریب ہو جا تو وہ اور قریب ہو گیا، حتی کہ انہوں نے اس کے سر پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور کہا، میں تمہیں وہ بات بتاتا ہوں، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”ہر تصویر بنانے والا دوزخ میں ہو گا اور اللہ اسے ہر تصویر کے عوض میں، جو اس نے بنائی ہو گی، ایک جان دے گا، جو اس کو جہنم میں دکھ پہنچائے گی۔“ اور فرمایا: اگر تجھے ضرور ہی تصویر بنانا ہے تو درخت کی تصویر اور بے جان چیز کی تصویر بنا، امام مسلم نے یہ حدیث اپنے استاد نصر بن علی جہضمی کو سنائی تو انہوں نے اس کا اقرار کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سعید بن ابی عروبہ نے نضر بن انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ نے (پوچھنے والوں کے مطالبے پر) فتوے دینے شروع کیے اور یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا ہے حتیٰ کہ ایک شخص نے ان سے سوال کیا کہ میں یہ تصویریں بنا تا ہوں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: قریب آؤ۔وہ شخص قریب آیا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے۔"جس شخص نے دنیا میں کوئی تصویر بنا ئی اس کو اس بات کا مکلف بنا یا جا ئے گا کہ وہ قیامت کے دن اس میں روح پھونکے اور وہ اس میں روح نہیں پھونک سکے گا۔" حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے نضر بیان کرتے ہیں، میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ لوگوں کو مسئلے بتانے لگے، لیکن یہ نہیں کہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، حتی کہ ایک آدمی نے ان سے سوال کیا اور کہا، میں یہ تصویریں بنانے والا آدمی ہوں تو ابن عباس ؓ نے اس سے کہا قریب ہو جا تو وہ آدمی قریب ہو گیا تو ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے دنیا میں تصویر بنائی تو قیامت کے دن اسے اس میں روح پھونکنے کا مکلف (پابند) بنایا جائے گا اور وہ روح نہیں پھونک سکے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
قتادہ نے نضر بن انس سے روایت کی کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا۔ اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند حدیث بیان کی۔ نضر بن انس سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ بالا روایت سنائی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابن فضیل نے عمارہ سے، انھوں نے ابو زرعہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مروان کے گھر گیا نھوں نے اس گھر میں تصوریں دیکھیں تو کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرما یا: " اللہ عزوجل نے فرمایا اس شخص سے بڑا ظالم کو ن ہوگا جو میری مخلوق کی طرح مخلوق بنا نے چلا ہو۔وہ ایک ذرہ تو بنا ئیں یا ایک دانہ تو بنا ئیں یا ایک جو تو بنا ئیں!" ابو زرعہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مروان کے گھر گیا، انہوں نے وہاں تصویریں دیکھیں تو کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے، جو میری تخلیق جیسی تخلیق کرنے لگتا ہے؟ وہ ایک ذرہ پیدا کریں، یا دانہ ہی پیدا کریں یا جو پیدا کریں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثينيه زهير بن حرب ، حدثنا جرير ، عن عمارة ، عن ابي زرعة ، قال: دخلت انا وابو هريرة دارا تبنى بالمدينة لسعيد او لمروان، قال: فراى مصورا يصور في الدار، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بمثله ولم يذكر او ليخلقوا شعيرة.وحدثينيه زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، قال: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو هُرَيْرَةَ دَارًا تُبْنَى بِالْمَدِينَةِ لِسَعِيدٍ أَوْ لِمَرْوَانَ، قَالَ: فَرَأَى مُصَوِّرًا يُصَوِّرُ فِي الدَّارِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ وَلَمْ يَذْكُرْ أَوْ لِيَخْلُقُوا شَعِيرَةً. جریر نے عمارہ سے، انھوں نے ابو زرعہ سے روایت کی، کہا: میں اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں ایک گھر میں گئے جوسعید (ابن عاص) رضی اللہ عنہ یا مروان (ابن حکم) کے لیے بنا یا جا رہا تھا، وہاں انھوں نے ایک مصور کو گھر میں تصویر بنا تے ہوئے دیکھا، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔اور اسی کے مانند روایت کی اور (جریر نے) "یا ایک جَو تو بنائیں " (کے الفاظ) بیان نہیں کیے۔ ابو زرعہ بیان کرتے ہیں، میں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ایک گھر میں داخل ہوئے، جو مدینہ میں سعید یا مروان کے لیے بنایا جا رہا تھا تو انہوں نے ایک مصور دیکھا، جو گھر میں تصویریں بنا رہا تھا تو انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور مذکورہ بالا حدیث بیان کی، لیکن اس میں، (یا ایک جو پیدا کریں) کا ذکر نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہو تے جس میں مجسمے (بت) یاتصاویر ہوں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے، جس میں مورتیاں یا تصاویر ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|