كِتَاب الصَّلَاةِ نماز کے احکام و مسائل The Book of Prayers 21. باب اسْتِخْلاَفِ الإِمَامِ إِذَا عَرَضَ لَهُ عُذْرٌ مِنْ مَرَضٍ وَسَفَرٍ وَغَيْرِهِمَا مَنْ يُصَلِّي بِالنَّاسِ وَأَنَّ مَنْ صَلَّى خَلْفَ إِمَامٍ جَالِسٍ لِعَجْزِهِ عَنِ الْقِيَامِ لَزِمَهُ الْقِيَامُ إِذَا قَدَرَ عَلَيْهِ وَنَسْخِ الْقُعُودِ خَلْفَ الْقَاعِدِ فِي حَقِّ مَنْ قَدَرَ عَلَى الْقِيَامِ: باب: مرض، سفر یا اور کسی عذر کی وجہ سے امام کا نماز میں کسی کو خلیفہ بنانا، اور اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھے اگر کھڑے ہونے کی طاقت رکھتا ہو، کیونکہ قیام کی طاقت رکھنے والے مقتدی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم منسوخ ہو چکا ہے۔ Chapter: If The Imam Experiences An Excuse, From Illness, Or Travelling, Etc. He May Appoint Someone Else To Lead The People In Prayer; The One Who Offers Prayer Behind The Imam Sitting Because He Is Unable To Stand Must Stand If He Is Able To Do So; And The Abrogation Of Sitting Behind A Sitting Imam For Those Who Are Able To Stand حدثنا احمد بن عبد الله بن يونس ، حدثنا زائدة ، حدثنا موسى بن ابي عائشة ، عن عبيد الله بن عبد الله ، قال: دخلت على عائشة ، فقلت لها: الا تحدثيني عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: بلى، ثقل النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " اصلى الناس؟ "، قلنا: لا، وهم ينتظرونك يا رسول الله، قال: " ضعوا لي ماء في المخضب "، ففعلنا، فاغتسل، ثم ذهب لينوء، فاغمي عليه، ثم افاق، فقال: " اصلى الناس؟ " قلنا: لا، وهم ينتظرونك يا رسول الله، فقال: " ضعوا لي ماء في المخضب "، ففعلنا، فاغتسل، ثم ذهب لينوء، فاغمي عليه، ثم افاق، فقال: " اصلى الناس؟ "، قلنا: لا، وهم ينتظرونك يا رسول الله، فقال: " ضعوا لي ماء في المخضب "، ففعلنا، فاغتسل، ثم ذهب لينوء، فاغمي عليه، ثم افاق، فقال: " اصلى الناس؟ "، فقلنا: لا، وهم ينتظرونك يا رسول الله، قالت: والناس عكوف في المسجد، ينتظرون رسول الله صلى الله عليه وسلم لصلاة العشاء الآخرة، قالت: فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ابي بكر، ان يصلي بالناس، فاتاه الرسول، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، يامرك ان تصلي بالناس، فقال ابو بكر، وكان رجلا رقيقا: يا عمر، صل بالناس، قال: فقال عمر: انت احق بذلك، قالت: فصلى بهم ابو بكر تلك الايام، ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وجد من نفسه خفة، فخرج بين رجلين، احدهما العباس لصلاة الظهر، وابو بكر يصلي بالناس، فلما رآه ابو بكر، ذهب ليتاخر، فاوما إليه النبي صلى الله عليه وسلم، ان لا يتاخر، وقال لهما: اجلساني إلى جنبه، فاجلساه إلى جنب ابي بكر، وكان ابو بكر يصلي وهو قائم بصلاة النبي صلى الله عليه وسلم، والناس يصلون بصلاة ابي بكر، والنبي صلى الله عليه وسلم قاعد، قال عبيد الله: فدخلت على عبد الله بن عباس، فقلت له: الا اعرض عليك ما حدثتني عائشة، عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: هات، فعرضت حديثها عليه، فما انكر منه شيئا، غير انه قال: اسمت لك الرجل الذي كان مع العباس؟ قلت: لا، قال: هو علي.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ ، فَقُلْتُ لَهَا: أَلَا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: بَلَى، ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَصَلَّى النَّاسُ؟ "، قُلْنَا: لَا، وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ "، فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ، فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: " أَصَلَّى النَّاسُ؟ " قُلْنَا: لَا، وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: " ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ "، فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ، فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: " أَصَلَّى النَّاسُ؟ "، قُلْنَا: لَا، وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: " ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ "، فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ، فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: " أَصَلَّى النَّاسُ؟ "، فَقُلْنَا: لَا، وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَتْ: وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ، يَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ، قَالَتْ: فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، فَأَتَاهُ الرَّسُولُ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَأْمُرُكَ أَنْ تُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ، وَكَانَ رَجُلًا رَقِيقًا: يَا عُمَرُ، صَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ، قَالَتْ: فَصَلَّى بِهِمْ أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الأَيَّامَ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَدَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً، فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ، أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ، وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ، ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ لَا يَتَأَخَّرَ، وَقَالَ لَهُمَا: أَجْلِسَانِي إِلَى جَنْبِهِ، فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي وَهُوَ قَائِمٌ بِصَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، فَقُلْتُ لَهُ: أَلَا أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ، عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: هَاتِ، فَعَرَضْتُ حَدِيثَهَا عَلَيْهِ، فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: أَسَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: هُوَ عَلِيٌّ. موسیٰ بن ابی عائشہ نے عبید اللہ بن عبد اللہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں نہیں بتائیں گی؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں! جب (بیماری کے سبب) نبی (کے حرکات وسکنات) بوجھل ہونے لگے تو آپ نے فرمایا: ” کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟“ ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! نہیں، وہ سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میرے لیے بڑے طشت میں پانی رکھو۔“ ہم نے پانی رکھا تو آپ نے غسل فرمایا: پھر آپ نے اٹھنے کی کوشش کی تو آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر آپ کو افاقہ ہوا تو فرمایا: ” کیا لوگوں نے نماز پڑھی لی؟“ ہم نے کہا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کے منتظر ہیں۔ آپ نے فرمایا: ” میرے لیے بڑے طشت میں پانی رکھو۔“ ہم نے رکھا تو آپ نے غسل فرمایا: پھر آپ اٹھنے لگے توآپ پر غشی طاری ہو کئی، پھر ہوش میں آئے تو فرمایا: ” کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟“ ہم نے کہا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”میرے لیے بڑے طشت میں پانی رکھو۔“ ہم نے رکھا تو آپ نے غسل فرمایا: پھر اٹھنے لگے تو بے شہوش ہو گئے، پھر ہوش میں آئے تو فرمایا: ” کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟“ ہم نے کہا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرر ہے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: لوگ مسجد میں اکٹھے بیٹھے ہوئے عشاء کی نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پیغام لانے والا ان کے پاس آیا اور بولا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا، اور وہ بہت نرم دل انسان تھے: عمر! آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ہی اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ان دنوں ابو بکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ تخفیف محسوس فرمائی تو دو مردوں کا سہارا لے کر، جن میں سے ایک عباس رضی اللہ عنہ تھے، نماز ظہر کے لیے نکلے، (اس وقت) ابو بکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ پیچھے نہ ہٹیں اور آپ نے ان دونوں سے فرمایا: ” مجھے ان کے پہلو میں بٹھا دو۔“ ان دونوں نے آپ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا، ابو بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے والے راوی) عبید اللہ نے کہا: پھر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کی: کیا میں آپ کے سامنے وہ حدیث پیش نہ کروں، جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں بیان کی ہے؟ انہوں نے کہا: لاؤ۔ تو میں نے ان کے سامنے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پیش کی، انہوں نے اس میں سے کسی بات کا انکار نہ کیا، ہاں! اتنا کہا: کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے تمہیں اس آدمی کا نام بتایا جو عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے کہا: وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں نہیں بتائیں گی؟ انہوں نے جواب دیا، کیوں نہیں! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟“ ہم نے عرض کیا نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے لگن (ٹب) میں پانی رکھو۔“ ہم نے پانی رکھا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرما لیا، پھر اٹھنے لگے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم ہوش میں آئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟“ ہم نے کہا نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ آپ کے منتظر ہیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے لگن (ٹب) میں پانی رکھو۔“ ہم نے پانی رکھا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا، پھر اٹھنے لگے تو آپ پر بے غشی طاری ہو گئی، پھر ہوش میں آئے تو پوچھا: ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟“ ہم نے کہا نہیں، وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے ہیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے لیے پانی کا ٹب رکھو۔ ہم نے ایسا کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا، پھر اٹھنے لگے تو بے ہوش ہو گئے، پھر ہوش میں آئے تو پوچھا: ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟“ تو ہم نے کہا نہیں، وہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کا انتظار کر رہے ہیں، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا، لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے عشاء کی نماز کے لیے آپصلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، پیغامبر ان کے پاس آ کر کہنے لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو حکم دے رہے ہیں، آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو ابو بکر نے کہا، کیونکہ وہ بہت نرم دل تھے، اے عمر! لوگوں کو نماز پڑھاؤ تو عمر نے جواب دیا، آپ ہی اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا، اس پر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان دنوں جماعت کرائی، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ افاقہ محسوس کیا (مزاج میں آسانی پائی) تو دو مردوں کا سہارا لے کر جن میں ایک عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، نماز ظہر کے لیے نکلے اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھا رہے تھے تو جب ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، پیچھے ہٹنے لگے تو انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ پیچھے نہ ہٹو، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا: مجھے ان کے پہلو میں بٹھا دو تو ان دونوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو ابوبکر کے پہلو میں بٹھا دیا، راوی نے کہا، ابوبکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھنے لگے اور لوگ ابوبکر کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، عبیداللہ نے بتایا پھر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا، اور ان سے عرض کیا، کیا میں آپ کو وہ حدیث نہ سناؤں، جو مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں سنائی ہے؟ انہوں نے کہا: سناؤ تو میں نے ان پر عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث پیش کی، انہوں نے اس میں کسی چیز پر اعتراض نہیں کیا، یا کسی بات کا انکار نہیں کیا، ہاں اتنا کہا کیا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تمہیں اس آدمی کا نام بتایا جو عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے؟ میں نے کہا، نہیں تو انہوں نے کہا، وہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا محمد بن رافع ، وعبد بن حميد واللفظ لابن رافع، قالا: حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، قال: قال الزهري ، واخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، ان عائشة اخبرته، قالت: " اول ما اشتكى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيت ميمونة، فاستاذن ازواجه ان يمرض في بيتها، واذن له، قالت: فخرج، ويد له على الفضل بن عباس، ويد له على رجل آخر، وهو يخط برجليه في الارض، فقال عبيد الله: فحدثت به ابن عباس، فقال: اتدري من الرجل الذي لم تسم عائشة؟ هو علي.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد واللفظ لابن رافع، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، قَالَ: قَالَ الزُّهْرِيُّ ، وَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: " أَوَّلُ مَا اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ، فَاسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِهَا، وَأَذِنَّ لَهُ، قَالَتْ: فَخَرَجَ، وَيَدٌ لَهُ عَلَى الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَيَدٌ لَهُ عَلَى رَجُلٍ آخَرَ، وَهُوَ يَخُطُّ بِرِجْلَيْهِ فِي الأَرْضِ، فَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَتَدْرِي مَنَ الرَّجُلُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّ عَائِشَةُ؟ هُوَ عَلِيٌّ. معمر نے بیان کیا کہ زہری نے کہا: مجھے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے خبر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا آغاز میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے ہوا، آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت مانگی کہ آپ کی تیمار داری میرے گھر میں کی جائے، انہوں نے اجازت دے دی۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) فرمایا: آپ اس طرح نکلے کہ آپ کا ایک ہاتھ فضل بن عباس رضی اللہ عنہ (کے کندھے) پر اور دوسرا ہاتھ ایک دوسرے آدمی پر تھا اور (نقاہت کی وجہ سے) آپ اپنے باؤں سے زمین پر لکیر بناتے جا رہے تھے۔ عبید اللہ نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کو سنائی تو انہوں نے کہا: کیا تم جانتے ہو وہ آدمی، جس کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نام نہیں لیا، کون تھے؟ وہ علی رضی اللہ عنہ تھا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا آغاز میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر سے ہوا، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے میرے گھر میں تیمار داری کروانے کی اجازت طلب کی (میرے گھر میں ایام مرض گزارنے کی اجازت چاہی) اور ازواج نے اجازت دے دی، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بتاتی ہیں، آپ اس حال میں گھر سے نکلے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ہاتھ فضل بن عباس پر اور دوسرا ایک دوسرے آدمی پر تھا، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں زمین پر خط (لکیر) کھینچ رہے تھے (پیر زمین پر گھسیٹ رہے تھے) عبیداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سنائی تو انہوں نے پوچھا، کیا تم جانتے ہو وہ آدمی جس کا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نام نہیں لیا، کون تھا؟ وہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني عبد الملك بن شعيب بن الليث ، حدثني ابي ، عن جدي ، قال: حدثني عقيل بن خالد ، قال ابن شهاب : اخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود ، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: " لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم، واشتد به وجعه، استاذن ازواجه ان يمرض في بيتي، فاذن له، فخرج بين رجلين، تخط رجلاه في الارض، بين عباس بن عبد المطلب، وبين رجل آخر، قال عبيد الله: فاخبرت عبد الله بالذي قالت عائشة، فقال لي عبد الله بن عباس: هل تدري من الرجل الآخر الذي لم تسم عائشة؟ قال: قلت: لا، قال ابن عباس: هو علي.حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: " لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاشْتَدَّ بِهِ وَجَعُهُ، اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي، فَأَذِنَّ لَهُ، فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ، تَخُطُّ رِجْلَاهُ فِي الأَرْضِ، بَيْنَ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَبَيْنَ رَجُلٍ آخَرَ، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَأَخْبَرْتُ عَبْدَ اللَّهِ بِالَّذِي قَالَتْ عَائِشَةُ، فَقَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: هَلْ تَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ الآخَرُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّ عَائِشَةُ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ عَلِيٌّ. عقیل بن خالد نے کہا: ابن شہاب (زہری) نے کہا: مجھے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور آپ کی تکلیف میں اضافہ ہو گیا تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت طلب کی کہ ان کی تیمار داری میرے گھر میں ہو، انہوں نے اجازت دے دی، پھر آپ دو آدمیوں کے درمیان (ان کا سہارا لے کر) نکلے، آپ کے دونوں پاؤں زمین پر لکیر بناتے جا رہے تھے (اور آپ) عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے۔ (حدیث کے راوی) عبید اللہ نے کہا: عائشہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ کہا تھا، میں نے اس کا تذکرہ عبد اللہ (بن عباس) رضی اللہ عنہما سے کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا: کیا تم جانتے ہو وہ آدمی کون تھا جس کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نام نہیں لیا؟ انہوں نے کہا: میں نے کہا: نہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوگئے اور آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے میرے گھر میں ایام عدت گزارنے کی اجازت طلب کی انہوں نے اجازت دے دی تو آپ دو آدمیوں کے سہارے اس حال میں نکلے آپ کے دونوں پیر زمین سے رگڑ کھارہے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے، حدیث کے راوی عبیداللہ کہتے ہیں، عائشہ ؓ نے جو کچھ بتایا تھا، میں نے اس کا تذکرہ ابن عباس ؓ سے کیا تو انہوں نے پوچھا کیا تم اس آدمی کو جانتے ہو، جس کا نام عائشہ ؓ نے نہیں لیا؟ میں نے کہا نہیں۔ انہوں نے بتایا، وہ علی بن ابی طالب ؓ تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
۔ عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امام بنانے کے) اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بار بار بات کی۔ میں نے اتنی بار آپ سے صرف اس لیے رجوع کیا کہ میرے دل میں یہ بات بیٹھتی نہ تھی کہ لوگ آپ کے بعد کبھی اس شخص سے محبت کریں گے جو آپ کا قائم مقام ہو گا اور اس کے برعکس میرا خیال یہ تھا کہ آپ کی جگہ پر جو شخص بھی کھڑا ہو گا لوگ اسے برا (برے شگون کا حامل) سمجھیں گے، اس لیے میں چاہتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامت (کی ذمہ داری) ابو بکر سے ہٹا دیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے اس معاملہ (ایام مرض میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امام بنانے کے معاملہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (بار بار پوچھا) اور میں بار بار صرف اس بنا پر پوچھ رہی تھی کیونکہ میرا دل یہ نہیں مانتا تھا کہ لوگ کبھی اس شخص سے محبت کریں گے جو آپصلی اللہ علیہ وسلم کا قائم مقام ہو گا، آپصلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ پر کھڑا ہو گا، کیونکہ میرا خیال یہ تھا کہ جو شخص آپصلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ پر کھڑا ہوگا لوگ اس سے بد شگونی لیں گے، اس لیے میں چاہتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامت کو ابوبکر سے پھیر دیں (کسی اور کو امام مقرر کریں)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا محمد بن رافع ، وعبد بن حميد واللفظ لابن رافع، قال عبد: اخبرنا، وقال ابن رافع، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، قال الزهري ، واخبرني حمزة بن عبد الله بن عمر ، عن عائشة ، قالت: " لما دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم بيتي، قال: مروا ابا بكر، فليصل بالناس، قالت: فقلت: يا رسول الله، إن ابا بكر، رجل رقيق، إذا قرا القرآن، لا يملك دمعه، فلو امرت غير ابي بكر، قالت: والله ما بي إلا كراهية، ان يتشاءم الناس باول من يقوم في مقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: فراجعته مرتين، او ثلاثا، فقال: ليصل بالناس ابو بكر، فإنكن صواحب يوسف ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد واللفظ لابن رافع، قَالَ عَبد: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ ابْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، قَالَ الزُّهْرِيُّ ، وَأَخْبَرَنِي حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " لَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي، قَالَ: مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ، رَجُلٌ رَقِيقٌ، إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ، لَا يَمْلِكُ دَمْعَهُ، فَلَوْ أَمَرْتَ غَيْرَ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا بِي إِلَّا كَرَاهِيَةُ، أَنْ يَتَشَاءَمَ النَّاسُ بِأَوَّلِ مَنْ يَقُومُ فِي مَقَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: فَرَاجَعْتُهُ مَرَّتَيْنِ، أَوْ ثَلَاثًا، فَقَالَ: لِيُصَلِّ بِالنَّاسِ أَبُو بَكْرٍ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ ". ۔ (عبید اللہ بن عبد اللہ کے بجائے) حمزہ بن عبد اللہ بن عمر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بیماری کے دوران میں) میرے گھر تشریف لے آئے تو آپ نے فرمایا: ”ابو بکر کو حکم پہنچاؤ کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔“ وہ کہتی ہیں: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ابو بکر نرم دل انسان ہیں، جب وہ قرآن پڑھیں گے تو اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ سکیں گے، لہٰذا اگر آپ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بجائے کسی اور کو حکم دیں (تو بہتر ہو گا۔) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اللہ کی قسم! میرے دل میں اس چیز کو ناپسند کرنے کی اس کے علاوہ اور کوئی بات نہ تھی کہ جو شخص سب سے پہلے آپ کی جگہ کھڑا ہو گا لوگ اسے برا سمجھیں گے، اس لیے میں نے دو یا تین دفعہ اپنی بات دہرائی تو آپ نے فرمایا: ”ابو بکر ہی لوگوں کو نماز پڑھائیں، بلاشبہ تم یوسف رضی اللہ عنہ کے ساتھ (معاملہ کرنے) والی عورتیں ہی ہو۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لے آئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔“ تو میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نرم دل ہیں، جب وہ قرآن پڑھتے ہیں تو اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں پا سکتے، اے کاش! آپصلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر کے سوا کسی اور کو حکم فرمائیں۔ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: اللہ کی قسم میرا اس سے صرف یہ مقصد تھا کہ لوگ جو شخص سب سے پہلے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑا ہوگا اس سے بدفالی پکڑتے ہوئے اس کو ناپسند کریں گے۔ (اس لیے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اس سے بچ جائیں) اس لیے میں نے دو یا تین دفعہ اپنی بات پیش کی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر ہی لوگوں کو نماز پڑھائیں، تم تو یوسف عَلیہِ السَّلام کے ساتھ معاملہ کرنے والی عورتیں ہو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو معاوية ، ووكيع . ح وحدثنا يحيى بن يحيى واللفظ له، قال: اخبرنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، عن عائشة ، قالت: " لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم، جاء بلال يؤذنه بالصلاة، فقال: مروا ابا بكر، فليصل بالناس، قالت: فقلت: يا رسول الله، إن ابا بكر رجل اسيف، إنه متى يقم مقامك، لا يسمع الناس، فلو امرت عمر، فقال: مروا ابا بكر، فليصل بالناس، قالت: فقلت لحفصة: قولي له: إن ابا بكر، رجل اسيف، إنه متى يقم مقامك، لا يسمع الناس، فلو امرت عمر، فقالت له: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنكن لانتن صواحب يوسف، مروا ابا بكر، فليصل بالناس، قالت: فامروا ابا بكر، يصلي بالناس، قالت: لما دخل في الصلاة، وجد رسول الله صلى الله عليه وسلم من نفسه خفة، فقام يهادى بين رجلين، ورجلاه تخطان في الارض، قالت: فلما دخل المسجد، سمع ابو بكر حسه ذهب يتاخر، فاوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، قم مكانك، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى جلس عن يسار ابي بكر، قالت: فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يصلي بالناس جالسا، وابو بكر قائما، يقتدي ابو بكر بصلاة النبي صلى الله عليه وسلم، ويقتدي الناس بصلاة ابي بكر ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَوَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَ بِلَالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ، فَقَالَ: مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ، إِنَّهُ مَتَى يَقُمْ مَقَامَكَ، لَا يُسْمِعِ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَقَالَ: مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: قُولِي لَهُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ، رَجُلٌ أَسِيفٌ، إِنَّهُ مَتَى يَقُمْ مَقَامَكَ، لَا يُسْمِعِ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَقَالَتْ لَهُ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَتْ: فَأَمَرُوا أَبَا بَكْرٍ، يُصَلِّي بِالنَّاسِ، قَالَتْ: لَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ، وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً، فَقَامَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ فِي الأَرْضِ، قَالَتْ: فَلَمَّا دَخَلَ الْمَسْجِد، سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ ذَهَبَ يَتَأَخَّرُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُمْ مَكَانَكَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُصَلِّي بِالنَّاسِ جَالِسًا، وَأَبُو بَكْرٍ قَائِمًا، يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِصَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَقْتَدِي النَّاسُ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ ". ابو معاویہ اور وکیع نے اعمش سے، انہوں نے ابراہیم سے، انہوں نے اسود سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا: ” ابو بکر سے کہو وہ نماز پڑھائیں۔“ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ابو بکر جلد غم زدہ ہو جانے والے انسان ہیں اور وہ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو (قراءت بھی) نہیں سنا سکیں گے، لہٰذا اگر آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دے دیں (تو بہتر بہتر ہو گا۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پھر) فرمایا: ”ابو بکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔“ میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا: نم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ ابو بکر جلد غمزدہ ہونے والے انسان ہیں، جب وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو (قراءت) نہ سنا سکیں، چنانچہ اگر آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں (تو بہتر ہو گا۔) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے کہہ دیا تو آپ نے فرمایا: ”تم یوسف رضی اللہ عنہ کے ساتھ (معاملہ کرنے) والی عورتوں ہی طرح ہو، ابو بکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔“ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: لوگوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حکم پہنچا دیا تو انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نماز شروع کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طبیعت میں قدرے تخفیف محسوس کی، آپ اٹھے، دو آدمی آپ کو سہارا دیے ہوئے تھے اور آپ کے پاؤں زمین پر لکیر کھینچتے جا رہے تھے۔ وہ فرماتی ہیں: جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی آہٹ سن لی، وہ پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ اپنی جگہ کھڑے رہو، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بائیں جانب بیٹھ گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر رہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت بوجھل ہو گئی، (آپصلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے) تو بلال رضی اللہ تعالی عنہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر ہوئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر کو کہو وہ نماز پڑھائیں۔ تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ابوبکر غمگین انسان ہیں اور وہ جب آپصلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ پر کھڑے ہوں گے، لوگوں کو قراءت نہیں سنا سکیں گے، اے کاش! آپصلی اللہ علیہ وسلم عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کو کہو، لوگوں کو نماز پڑھائیں“ تو میں نے حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا، تم نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم سے کہو، ابو بکر غمگین انسان ہے جب وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑے ہوں، لوگوں کو قراءت نہیں سنا سکیں گے تو اگر آپصلی اللہ علیہ وسلم عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیں تو بہتر ہو گا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم یوسف عَلیہِ السَّلام سے معاملہ کرنے والی عورتوں کی طرح ہو، ابوبکر کو کہو لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ جب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نماز پڑھانے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض میں کچھ تخفیف محسوس کی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، دو آدمی آپصلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دے رہے تھے، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں زمین پر نشان بنا رہے تھے، اسی طرح آپصلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہو گئے، جب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی آہٹ محسوس کی، ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ سے روکا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی بائیں جانب بیٹھ گئے تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھاتے رہے، ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے مقتدی تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا منجاب بن الحارث التميمي ، اخبرنا ابن مسهر . ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا عيسى بن يونس كلاهما، عن الاعمش ، بهذا الإسناد نحوه، وفي حديثهما: لما مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم مرضه الذي توفي فيه، وفي حديث ابن مسهر، فاتي برسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى اجلس إلى جنبه، وكان النبي صلى الله عليه وسلم، يصلي بالناس وابو بكر يسمعهم التكبير، وفي حديث عيسى، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي، وابو بكر إلى جنبه، وابو بكر يسمع الناس ".حَدَّثَنَا مِنْجَابُ بْنُ الْحَارِثِ التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ مُسْهِرٍ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ كِلَاهُمَا، عَنِ الأَعْمَشِ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَفِي حَدِيثِهِمَا: لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَضَهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، وَفِي حَدِيثِ ابْنِ مُسْهِر، فَأُتِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى أُجْلِسَ إِلَى جَنْبِهِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُصَلِّي بِالنَّاسِ وَأَبُو بَكْرٍ يُسْمِعُهُمُ التَّكْبِيرَ، وَفِي حَدِيثِ عِيسَى، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، وَأَبُو بَكْرٍ إِلَى جَنْبِهِ، وَأَبُو بَكْرٍ يُسْمِعُ النَّاسَ ". ۔ علی بن مسہر اور عیسیٰ بن یونس نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ مذکورہ بالا روایت بیان کی۔ ان دونوں کی حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض میں مبتلا ہوئے جس میں آپ نے وفات پائی۔ ابن مسہر کی روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لایا گیا یہاں تک کہ انہیں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو تکبیر سنا رہے تھے۔ عیسیٰ کی روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور لوگوں کو نماز پڑھانے لگے، ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے اور لوگوں کو (آپ کی تکبیر) سنا رہے تھے۔ امام صاحب ایک اور سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت کی بیماری میں مبتلا ہوئے، ابن مسہر کہتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لایا گیا حتیٰ کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو جماعت کرانے لگے اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ان کو تکبیر سنانے لگے اور عیسیٰ کی روایت میں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھانے لگے اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے اور لوگوں کو تکبیر سنا رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قالا: حدثنا ابن نمير ، عن هشام . ح وحدثنا ابن نمير والفاظهم متقاربة، قال: حدثنا ابي ، قال: حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: " امر رسول الله صلى الله عليه وسلم، ابا بكر ان يصلي بالناس في مرضه، فكان يصلي بهم، قال عروة: فوجد رسول الله صلى الله عليه وسلم من نفسه خفة، فخرج، وإذا ابو بكر يؤم الناس، فلما رآه ابو بكر استاخر، فاشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، اي كما انت، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم حذاء ابي بكر، إلى جنبه، فكان ابو بكر يصلي بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، والناس يصلون بصلاة ابي بكر ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِي مَرَضِهِ، فَكَانَ يُصَلِّي بِهِمْ، قَالَ عُرْوَةُ: فَوَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً، فَخَرَجَ، وَإِذَا أَبُو بَكْرٍ يَؤُمُّ النَّاسَ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ اسْتَأْخَرَ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيْ كَمَا أَنْتَ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِذَاءَ أَبِي بَكْرٍ، إِلَى جَنْبِهِ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ ". ایک اور سند کے ساتھ ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے روایت کی اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو وہ ان کو نماز پڑھاتے رہے۔ عروہ نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو آپ باہر تشریف لائے، اس وقت ابو بکر رضی اللہ عنہ لوگوں کی امت کر رہے تھے۔ جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ جیسے ہو ویسے ہی رہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر رضی اللہ عنہ کے برابر ان کے پہلو میں بیٹھ گئے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کر رہے تھے اور لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو وہ ان کو جماعت کرانے لگے، عروہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو آرام میں محسوس کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے، ابوبکر اس وقت جماعت کروا رہے تھے، ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ فرمایا، اپنی حالت پر رہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے برابر ان کے کے پہلو میں بیٹھ گئے تو ابوبکر نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرنے لگے، اور لوگ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني عمرو الناقد ، وعبد بن حميد ، وحسن الحلواني ، قال عبد: اخبرني، وقال الآخران: حدثنا يعقوب وهو ابن إبراهيم بن سعد ، وحدثني ابي ، عن صالح ، عن ابن شهاب ، قال: اخبرني انس بن مالك : " ان ابا بكر، كان يصلي لهم في وجع رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي توفي فيه، حتى إذا كان يوم الاثنين، وهم صفوف في الصلاة، كشف رسول الله صلى الله عليه وسلم ستر الحجرة، فنظر إلينا وهو قائم، كان وجهه ورقة مصحف، ثم تبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ضاحكا، قال: فبهتنا ونحن في الصلاة من فرح بخروج رسول الله صلى الله عليه وسلم، ونكص ابو بكر على عقبيه ليصل الصف، وظن ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خارج للصلاة، فاشار إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، ان اتموا صلاتكم، قال: ثم دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فارخى الستر، قال: فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم من يومه ذلك "،حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، وَحَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، قَالَ عَبد: أَخْبَرَنِي، وَقَالَ الآخَرَانِ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، وحَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ : " أَنَّ أَبَا بَكْرٍ، كَانَ يُصَلِّي لَهُمْ فِي وَجَعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الِاثْنَيْنِ، وَهُمْ صُفُوفٌ فِي الصَّلَاةِ، كَشَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتْرَ الْحُجْرَةِ، فَنَظَرَ إِلَيْنَا وَهُوَ قَائِمٌ، كَأَنَّ وَجْهَهُ وَرَقَةُ مُصْحَفٍ، ثُمَّ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَاحِكًا، قَالَ: فَبُهِتْنَا وَنَحْنُ فِي الصَّلَاةِ مِنْ فَرَحٍ بِخُرُوجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَكَصَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى عَقِبَيْهِ لِيَصِلَ الصَّفَّ، وَظَنَّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَارِجٌ لِلصَّلَاةِ، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، أَنْ أَتِمُّوا صَلَاتَكُمْ، قَالَ: ثُمَّ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْخَى السِّتْرَ، قَالَ: فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ يَوْمِهِ ذَلِكَ "، صالح نے ابن شہاب سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری دوران، جس میں آپ نے وفات پائی، ابو بکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے حتیٰ کہ جب سوموار کا دن آیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نماز میں صف بستہ تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرے کا پردہ اٹھایا اور ہماری طرف دیکھا، اس وقت آپ کھڑے ہوئے تھے، ایسا لگتا تھا کہ آپ کا رخ انور مصحف کا ایک ورق ہے، پھر آپ نے ہنستے ہوئے تبسم فرمایا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نماز ہی میں اس خوشی کے سبب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باہر آنے سے ہوئی تھی مبہوت ہو کر رہ گئے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ الٹے پاؤں لوٹے تالکہ صف میں مل جائیں، انہوں نے سمجھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے باہر تشریف لا رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ اپنی نماز مکمل کرو، پھر آپ واپس حجرے میں داخل ہو گئے اور پردہ لٹکا دیا۔ اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں جس میں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی، ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ جماعت کراتے تھے، حتیٰ کہ جب سوموار کا دن آ پہنچا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم صفوں میں نماز پڑھ رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرے کا پردہ اٹھایا، پھر کھڑے ہو کر ہماری طرف دیکھا گویا آپصلی اللہ علیہ وسلم کا رخ انور (حسن و جمال اور صفائی میں) مصحف کا ورق تھا۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم مسکرا کر ہنسنے لگے۔ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکلنے کی خوشی میں مبہوت ہو گئے حالانکہ ہم نماز میں تھے۔ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ الٹے پاؤں لوٹ کر صف میں شریک ہونا چاہتے تھے، انہوں نے خیال کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے اشارہ سے، صحابہ کرام کو اپنی نماز مکمل کرنے کے لیے کہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس حجرہ میں داخل ہو گئے اور پردہ لٹکا دیا، اور اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سفیان بن عیینہ نے (ابن شہاب) زہری سے، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف میں نے جو آخری نظر ڈالی (وہ اس طرح تھی کہ) سوموار کے دن آپ نے (حجرے کا) پردہ اٹھایا .... جس طرح اوپر واقعہ (بیان ہوا) ہے۔ (امام مسلم فرماتے ہیں:) صالح کی حدیث کامل اور سیر حاصل ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ آخری بار جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا، سوموار کے دن آپصلی اللہ علیہ وسلم نے حجرے کا پردہ اٹھایا، اور اوپر والا واقعہ بیان کیا۔ صالح کی حدیث کامل اور سیر حاصل ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
معمر نے زہری کے حوالے سے خبر دی، انہوں نے کہا: مجھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جب سوموار کا دن آیا .... اوپر والے دونوں راویوں کے مطابق۔ امام صاحب ایک اور سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا محمد بن المثنى ، وهارون بن عبد الله ، قالا: حدثنا عبد الصمد ، قال: سمعت ابي يحدث، قال: حدثنا عبد العزيز ، عن انس ، قال: " لم يخرج إلينا نبي الله صلى الله عليه وسلم ثلاثا، فاقيمت الصلاة، فذهب ابو بكر يتقدم، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم: بالحجاب، فرفعه فلما، وضح لنا وجه نبي الله صلى الله عليه وسلم، ما نظرنا منظرا قط، كان اعجب إلينا من وجه النبي صلى الله عليه وسلم، حين وضح لنا، قال: فاوما نبي الله صلى الله عليه وسلم بيده إلى ابي بكر، ان يتقدم، وارخى نبي الله صلى الله عليه وسلم الحجاب، فلم نقدر عليه حتى مات ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " لَمْ يَخْرُجْ إِلَيْنَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا، فَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَذَهَبَ أَبُو بَكْرٍ يَتَقَدَّمُ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: بِالْحِجَابِ، فَرَفَعَهُ فَلَمَّا، وَضَحَ لَنَا وَجْهُ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا نَظَرْنَا مَنْظَرًا قَطُّ، كَانَ أَعْجَبَ إِلَيْنَا مِنْ وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ وَضَحَ لَنَا، قَالَ: فَأَوْمَأَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، أَنْ يَتَقَدَّمَ، وَأَرْخَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحِجَابَ، فَلَمْ نَقْدِرْ عَلَيْهِ حَتَّى مَاتَ ". ۔ عبد العزیز نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (بیماری کے ایام میں) تین دن ہماری طرف تشریف نہ لائے، (انہی دنوں میں سے) ایک دن نماز کھڑی کی گئی اور ابو بکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کمرے کے) پردے کی طرف بڑھے اور اسے اٹھا دیا، جب ہمارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ انور کھلا تو ہم نے کبھی ایسا منظر نہ دیکھا تھا جو ہمارے لیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کے نظارے سے، جو ہمارے سامنے تھا، زیادہ حسین اور پسندیدہ ہو۔ وہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ آگے بڑھیں اور آپ نے پردہ گرا دیا، پھر آپ وفات تک ایسا نہ کر سکے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (بیماری کے ایام میں) تین دن ہمارے پاس تشریف نہیں لائے (ان ہی دنوں میں) ایک دن نماز کھڑی کی گئی، ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ آگے بڑھنے لگے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجرہ مبارک کا) پردہ اٹھایا، جب ہمارے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ انور ظاہر ہوا، آپصلی اللہ علیہ وسلم کے روئے (چہرے) مبارک سے زیادہ حسین و پسندیدہ منظر ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کو ہاتھ کے اشارہ سے آگے بڑھنے کے لیے فرمایا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ گرا دیا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک ہم آپصلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا حسين بن علي ، عن زائدة ، عن عبد الملك بن عمير ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاشتد مرضه، فقال: " مروا ابا بكر، فليصل بالناس "، فقالت عائشة: يا رسول الله، إن ابا بكر، رجل رقيق، متى يقم مقامك، لا يستطع ان يصلي بالناس، فقال: " مري ابا بكر، فليصل بالناس، فإنكن صواحب يوسف "، قال: فصلى بهم ابو بكر، حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاشْتَدَّ مَرَضُهُ، فَقَالَ: " مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ "، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ، رَجُلٌ رَقِيقٌ، مَتَى يَقُمْ مَقَامَكَ، لَا يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، فَقَالَ: " مُرِي أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ "، قَالَ: فَصَلَّى بِهِمْ أَبُو بَكْرٍ، حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے اور آپ کی بیماری نے شدت اختیار کی تو آپ نے فرمایا: ” ابو بکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔“ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: وہ نرم دل آدمی ہیں، جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو نماز نہ پڑھا سکیں گے۔ آپ نے فرمایا: ” (اے عائشہ!) ابو بکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تم تو یوسف رضی اللہ عنہ کے ساتھ (معاملہ کرنے) والیوں کی طرح ہو۔“ انہوں (ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ) نے کہا: اس طرح ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں لوگوں کو نماز پڑھانے لگے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑ گئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری نے شدت اختیار کر لی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے“، اس پر عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کیا، وہ نرم دل ہیں، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو نماز نہیں پڑھا سکیں گے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر کو کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائے، تم تو یوسف عَلیہِ السَّلام کے ساتھ معاملہ کرنے والیوں کی طرح ہو۔“ تو ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|