صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب الصَّلَاةِ
نماز کے احکام و مسائل
The Book of Prayers
22. باب تَقْدِيمِ الْجَمَاعَةِ مَنْ يُصَلِّي بِهِمْ إِذَا تَأَخَّرَ الإِمَامُ وَلَمْ يَخَافُوا مَفْسَدَةً بِالتَّقْدِيمِ:
باب: جب امام کے آنے میں دیر ہو اور کسی فتنہ وفساد کا خوف نہ ہو تو کسی اور کو امام بنانے کا جواز۔
Chapter: The Congregation Appointing Someone To Lead Them If The Imam Is Delayed And If There Is No Fear Of Negative Repercussions
حدیث نمبر: 949
Save to word اعراب
حدثني يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد الساعدي ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، ذهب إلى بني عمرو بن عوف ليصلح بينهم، فحانت الصلاة، فجاء المؤذن إلى ابي بكر، فقال: اتصلي بالناس فاقيم؟ قال: نعم، قال: فصلى ابو بكر، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، والناس في الصلاة، فتخلص حتى وقف في الصف، فصفق الناس، وكان ابو بكر، لا يلتفت في الصلاة، فلما اكثر الناس التصفيق، التفت، فراى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان امكث مكانك، فرفع ابو بكر يديه، فحمد الله عز وجل على ما امره به رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك، ثم استاخر ابو بكر، حتى استوى في الصف، وتقدم النبي صلى الله عليه وسلم، فصلى، ثم انصرف، فقال: " يا ابا بكر، ما منعك ان تثبت إذ امرتك؟ "، قال ابو بكر: ما كان لابن ابي قحافة، ان يصلي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما لي رايتكم اكثرتم التصفيق من نابه شيء في صلاته، فليسبح فإنه إذا سبح التفت إليه، وإنما التصفيح للنساء "،حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَهَبَ إِلَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، فَحَانَتِ الصَّلَاةُ، فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: أَتُصَلِّي بِالنَّاسِ فَأُقِيمُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ فِي الصَّلَاةِ، فَتَخَلَّصَ حَتَّى وَقَفَ فِي الصَّفِّ، فَصَفَّقَ النَّاسُ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ، لَا يَلْتَفِتُ فِي الصَّلَاةِ، فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِيقَ، الْتَفَتَ، فَرَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنِ امْكُثْ مَكَانَكَ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَيْهِ، فَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ، حَتَّى اسْتَوَى فِي الصَّفِّ، وَتَقَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَقَالَ: " يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُكَ؟ "، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا كَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ، أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا لِي رَأَيْتُكُمْ أَكْثَرْتُمُ التَّصْفِيقَ مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ، فَلْيُسَبِّحْ فَإِنَّهُ إِذَا سَبَّحَ الْتُفِتَ إِلَيْهِ، وَإِنَّمَا التَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ "،
امام مالک نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنوعمرو بن عوف کے ہاں، ان کے درمیان صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ اس دوران میں نماز کا وقت ہو گیا تو مؤذن ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے تاکہ میں تکبیر کہوں؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں۔ انہوں (سہل بن سعد) نے کہا: اس طرح ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نماز شروع کر دی، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے جب کہ لوگ نماز میں تھے، آپ بچ کر گزرتے ہوئے (پہلی) صف میں پہنچ کر کھڑے ہو گئے۔ اس پر لوگوں نے ہاتھوں کو ہاتھوں پر مار کر آواز کرنی شروع کر دی۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنی نماز میں کسی اور طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔ جب لوگوں نے مسلسل ہاتھوں سے آواز کی تو وہ متوجہ ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ اپنی جگہ کھڑے رہیں، اس پر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ رسول اللہ رضی اللہ عنہ نے ان کو اس بات کا حکم دیا، پھر اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹ کر صف میں صحیح طرح کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور آپ نے نماز پڑھائی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا: اے ابو بکر! جب میں نے تمہیں حکم دیا تو اپنی جگہ ٹکے رہنے سے تمہیں کس چیز نے روک دیا؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابو قحافہ کے بیٹے کے لیے زیبا نہ تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے (کھڑے ہو کر) جماعت کرائے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر) فرمایا: کیا ہوا؟ میں نے تم لوگوں کو دیکھا کہ تم بہت تالیاں بجا رہے تھے؟ جب نماز میں تمہیں کوئی ایسی بات پیش آ جائے (جس پر توجہ دلانا ضروری ہو) تو سبحان اللہ کہو، جب کہو سبحان اللہ کہے گا تواس کی طرف توجہ کی جائے گی، ہاتھ پر ہاتھ مارنا، صرف عورتوں کےلیے ہے۔
حضرت سہل بن ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمرو بن عوف کے ہاں ان کے درمیان صلح کروانے کے لیے تشریف لے گئے تو نماز کا وقت ہو گیا، اس پر مؤذن ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا اور کہا کیا آپ جماعت کروائیں گے تو میں تکبیر کہوں؟ ابوبکر نے کہا، ہاں، چنانچہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے نماز شروع کر دی اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم صفوں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچے، اس پر لوگوں نے ایک ہاتھ دوسرے پر مارنا شروع کیا اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اپنی نماز میں کسی طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔ جب لوگوں نے مسلسل تالی بجائی تو وہ متوجہ ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ سے اپنی جگہ کھڑا رہنے کے لیے کہا، اس پر ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امامت کا اعزاز بخشا، پھر پیچھے ہٹ کر صف میں سیدھے کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: اے ابوبکر! میرے حکم دینے کے بعد اپنی جگہ ٹکے رہنے سے کس چیز نے روک دیا، تمہیں؟ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا، ابوقحافہ کے بیٹے کے لیے زیبا نہ تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (موجودگی میں) جماعت کرائے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: عجیب بات ہے میں نے دیکھا کہ تم لوگ بکثرت تالیاں بجا رہے تھے، (یاد رکھو) جب نماز میں کوئی بات پیش آ جائے تو سُبحَانَ اللہ کہے گا تو اس طرف توجہ کی جائے گی، اور ہاتھ پر ہاتھ مارنا تو عورتوں کے لیے ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 950
Save to word اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز يعني ابن ابي حازم ، وقال قتيبة ، حدثنا يعقوب وهو ابن عبد الرحمن القاري كلاهما، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، بمثل حديث مالك، وفي حديثهما: فرفع ابو بكر يديه، فحمد الله، ورجع القهقرى وراءه، حتى قام في الصف،حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ ، وَقَالَ قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيُّ كِلَاهُمَا، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، بِمِثْلِ حَدِيثِ مَالِكٍ، وَفِي حَدِيثِهِمَا: فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَيْهِ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَرَجَعَ الْقَهْقَرَى وَرَاءَهُ، حَتّى قَامَ فِي الصَّفِّ،
عبد العزیز بن ابی حازم اور یعقوب بن عبد الرحمن القادری دونوں نے ابو حازم سے اور انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے امام مالک کی روایت کی طرح روایت بیان کی۔ ان دونوں کی حدیث میں یہ ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے، اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا اور الٹے پاؤں واپس ہوئے حتیٰ کہ صف میں آ کھڑے ہوئے۔
عبد العزیز اور یعقوب دونوں ابو حازم کی سہل بن سعید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں اور ان کی حدیث میں یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور واپس الٹے پاؤں لوٹ کر صف میں کھڑے ہو گئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 951
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن بزيع ، اخبرنا عبد الاعلى ، حدثنا عبيد الله ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد الساعدي ، قال: ذهب نبي الله صلى الله عليه وسلم، يصلح بين بني عمرو بن عوف، بمثل حديثهم، وزاد، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرق الصفوف حتى قام عند الصف المقدم، وفيه ان ابا بكر: رجع القهقرى.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الأَعْلَى ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ: ذَهَبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُصْلِحُ بَيْنَ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، بِمِثْلِ حَدِيثِهِمْ، وَزَادَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَقَ الصُّفُوفَ حَتَّى قَامَ عِنْدَ الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ، وَفِيهِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ: رَجَعَ الْقَهْقَرَى.
عبید اللہ نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے درمیان صلح کرانے تشریف لے گئے .... آگے مذکورہ بالا راویوں کے مانند (حدیث بیان کی) اور اس میں یہ اضافہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے پہلی صف کے قریب کھڑے ہو گئے۔ اس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ الٹے پاؤں پیچھے لوٹ آئے۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمرو بن عوف کے درمیان صلح کروانے تشریف لے گئے جب کہ مذکورہ بالا راویوں نے بیان کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور صفوں کو چیر کر پہلی صف میں شریک ہو گئے، اور ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ الٹے پاؤں پیچھے لوٹ آئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 952
Save to word اعراب
حدثني محمد بن رافع ، وحسن بن علي الحلواني جميعا، عن عبد الرزاق ، قال ابن رافع، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا ابن جريج ، حدثني ابن شهاب ، عن حديث عباد بن زياد ، ان عروة بن المغيرة بن شعبة اخبره، ان المغيرة بن شعبة اخبره، انه غزا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم تبوك، قال المغيرة: فتبرز رسول الله صلى الله عليه وسلم، قبل الغائط، فحملت معه إداوة قبل صلاة الفجر، فلما رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلي، اخذت اهريق على يديه من الإداوة، وغسل يديه ثلاث مرات، ثم غسل وجهه، ثم ذهب يخرج جبته عن ذراعيه، فضاق كما جبته، فادخل يديه في الجبة، حتى اخرج ذراعيه من اسفل الجبة، وغسل ذراعيه إلى المرفقين، ثم توضا على خفيه، ثم اقبل، قال المغيرة: فاقبلت معه، حتى نجد الناس قد قدموا عبد الرحمن بن عوف، فصلى لهم، فادرك رسول الله صلى الله عليه وسلم إحدى الركعتين، فصلى مع الناس الركعة الآخرة، فلما سلم عبد الرحمن بن عوف، قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يتم صلاته، فافزع ذلك المسلمين، فاكثروا التسبيح، فلما قضى النبي صلى الله عليه وسلم صلاته، اقبل عليهم، ثم قال: احسنتم، او قال: قد اصبتم يغبطهم، ان صلوا الصلاة لوقتها ".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ جميعا، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ حَدِيثِ عَبَّادِ بْنِ زِيَادٍ ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبُوكَ، قَالَ الْمُغِيرَةُ: فَتَبَرَّزَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِبَلَ الْغَائِطِ، فَحَمَلْتُ مَعَهُ إِدَاوَةً قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ، فَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ، أَخَذْتُ أُهَرِيقُ عَلَى يَدَيْهِ مِنَ الإِدَاوَةِ، وَغَسَلَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ، ثُمَّ ذَهَبَ يُخْرِجُ جُبَّتَهُ عَنْ ذِرَاعَيْهِ، فَضَاقَ كُمَّا جُبَّتِهِ، فَأَدْخَلَ يَدَيْهِ فِي الْجُبَّةِ، حَتَّى أَخْرَجَ ذِرَاعَيْهِ مِنْ أَسْفَلِ الْجُبَّةِ، وَغَسَلَ ذِرَاعَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ عَلَى خُفَّيْهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ، قَالَ الْمُغِيرَةُ: فَأَقْبَلْتُ مَعَهُ، حَتَّى نَجِدُ النَّاسَ قَدْ قَدَّمُوا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، فَصَلَّى لَهُمْ، فَأَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَى الرَّكْعَتَيْنِ، فَصَلَّى مَعَ النَّاسِ الرَّكْعَةَ الآخِرَةَ، فَلَمَّا سَلَّمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُتِمُّ صَلَاتَهُ، فَأَفْزَعَ ذَلِكَ الْمُسْلِمِينَ، فَأَكْثَرُوا التَّسْبِيحَ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ، أَقْبَلَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ قَالَ: أَحْسَنْتُمْ، أَوَ قَالَ: قَدْ أَصَبْتُمْ يَغْبِطُهُمْ، أَنْ صَلَّوْا الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا ".
۔ عباد بن زیاد کو عروہ بن مغیرہ بن شعبہ خبر دی کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غز وہ تبوک میں شریک ہوئے۔ مغیرہ نے کہا: صبح کی نماز سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے باہر نکلے اور میں نے آپ کے ہمراہ پانی کا ایک برتن اٹھا لیا۔ جب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میر ی طرف لوٹے تو میں برتن سے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈالنے لگا، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ تین بار دھوئے، پھر اپنا چہرہ دھویا، اس کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں سے جبہ نکالنے لگے، جبے کی دونوں آستینیں تنگ ہوئیں تو آپ نے اپنے ہاتھ جبے کے اندر کر لیے حتیٰ کہ آپ نے اپنے بازور جبے کے نیچے سے نکال لیے اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے، پھر اپنے دونوں موزوں پر مسح (کر کے) وضو (مکمل) کیا، پھر آپ آگے بڑھے۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بھی آپ کے ساتھ آگے بڑھا یہاں تک کہ ہم لوگوں کو اس حال میں پایا کہ وہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو آگے کر چکے تھے، انہوں نے نماز پڑھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو رکعتوں میں سے ایک ملی۔ آپ نے آخری رکعت لوگوں کے ساتھ ادا کی، چنانچہ جب حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے سلام پھیرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کی تکمیل کے لیے کھڑے ہو گئے، اس بات نے مسلمانوں کو گھبراہٹ میں مبتلا کر دیا اور انہوں نے کثرت سے سبحان اللہ کہنا شروع کر دیا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پوری کر لی تو ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم نے اچھا کیا۔ یا فرمایا: تم نے ٹھیک کیا۔ آپ نے ان کی تحسین فرمائی کہ انہوں نے وقت پر نماز پڑھ لی تھی۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں شریک ہوئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے باہر نکلے اور میں صبح کی نماز سے پہلے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پانی کا برتن اٹھا کر چلا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس لوٹے تو میں برتن (لوٹا) سے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر پانی ڈالنے لگا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ تین بار دھوئے، پھر اپنا چہرہ دھویا، اس کے بعد اپنے بازوؤں سے جبہ اتارنے لگے، آستینیں تنگ نکلیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ جبے کے اندر کر لیے حتیٰ کہ اپنے بازو جبے کے نیچے سے نکال لیے، اور ان کو کہنیوں سمیت دھویا، پھر موزوں کے اوپر مسح کیا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے اور میں بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل پڑا، (ہم نے پہنچ کر) لوگوں کو اس حال میں پایا کہ وہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کو آگے کر چکے تھے، انہوں نے نماز پڑھائی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رکعت ملی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری رکعت لوگوں کے ساتھ ادا کی تو جب عبدالرحمان بن عوف نے سلام پھیرا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کی تکمیل کے لیے کھڑے ہو گئے، مسلمان اس سے گھبرا گئے (پریشان ہو گئے) اور انہوں نے کثرت سے سُبحَانَ اللّٰہ کہنا شروع کر دیا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پوری کر لی تو ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: تم نے اچھا کیا یا فرمایا تم نے ٹھیک کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے وقت پر نماز پڑھنے کو قابل رشک قرار دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 953
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن رافع ، والحلواني ، قالا: حدثنا عبد الرزاق ، عن ابن جريج ، حدثني ابن شهاب ، عن إسماعيل بن محمد بن سعد ، عن حمزة بن المغيرة ، نحو حديث عباد، قال المغيرة : فاردت تاخير عبد الرحمن، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: دعه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَالْحُلْوَانِيُّ ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ ، نَحْوَ حَدِيثِ عَبَّادٍ، قَالَ الْمُغِيرَةُ : فَأَرَدْتُ تَأْخِيرَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعْهُ.
اسماعیل بن محمد بن سعد نے حمزہ بن مغیرہ سے روایت کی جو عباد کی روایت کی طرح ہے۔ (اس میں یہ بھی ہے کہ) مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عبد الرحمن بن عوف کو پیچھے کرنا چاہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے (آگے) رہنے دو۔
امام صاحب ایک اور سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں اس میں ہے کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں نے عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالی عنہ کو پیچھے ہٹانا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، (نماز پڑھانے دو)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.