كِتَاب الصَّلَاةِ نماز کے احکام و مسائل 47. باب سُتْرَةِ الْمُصَلِّي: باب: نمازی کا سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا استحباب، اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنا، اور گزرنے والے کا حکم اور گزرنے والے کو روکنا، نمازی کے آگے لیٹنے کا جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کا حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کا بیان۔
ابو احوص نے سماک (بن حرب) سے، انہوں نے موسیٰ بن طلحہ سے اور انہوں نے اپنے والد حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنا سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز رکھ لے تو نماز پڑھتا رہے اور اس سے آگے سے گزرنے والے کی پروا نہ کرے۔“
محمد بن عبد اللہ بن نمیر اور اسحاق بن ابراہیم نے حدیث بیان کی، اسحاق نے کہا: ”عمر بن عبید طنافسی نے ہمیں خبر دی“ اور ابن نمیر نے کہا: ”ہمیں حدیث سنائی“ انہوں نے سماک سے، انہوں نے موسیٰ بن طلحہ سے اور انہوں نے اپنے والد (حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم نماز پڑھ رہے ہوتے اور جاندار ہمارے سامنے گزرتے ہم نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: ” تم میں سے کسی شخص کے آگے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز ہو تو پھر جو چیز بھی اس کے سامنے سے گزرے گی اسے اس کا کوئی نقصان نہیں۔“ ابن نمیر نے، پھر جو چیز بھی اس کے سامنے سے گزرے گی، کے بجائے ” تو جو کوئی بھی اس کے سامنے سے گزرے گی اسے اس کا کوئی نقصان نہیں، کے الفاظ بیان کیے۔
۔ سعید بن ابی ایوب نے ابو اسود سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازی کے سترے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”پالان کی پچھلی لکڑی کے مثل ہو۔“
حیوہ نے ابو اسود محمد بن عبد الرحمن سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غزوہ تبوک میں نمازی کے سترے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”پالان کی پچھلی لکڑی کے مانند ہو۔“
عبد اللہ بن نمیر نے عبید اللہ سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن نکلتے تو نیزے کا حکم دیتے، وہ آپ کے آگے گاڑ دیا جاتا، آپ اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپ کے پیچھے ہوتے، سفر میں بھی آپ ایسا ہی کرتے، اس بنا پر حکام نے اس (نیزہ گاڑنے) کو اپنا لیا ہے۔
ابو بکر بن ابی شیبہ نے اور ابن نمیر نے کہا: ہمیں محمد بن بشر نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں عبید اللہ نے نافع سے حدیث سنائی اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نیزہ گاڑتے اور اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے۔ امام مسلم رضی اللہ عنہ کے استد ابن نمیر نے یرکز اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے یغزر کا لفظ استعمال کیا (دونوں کے معنیٰ ہیں: آپ گاڑتے تھے۔) اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں یہ اضافہ ہے: عبید اللہ نے کہا: اس (عنزۃ) سے مراد حربۃ (برچھی) ہے۔
معتمر بن سلیمان نے عبید اللہ سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (بوقت ضرورت) اپنی سواری کو سامنے کر کے (بٹھا لیتے اور) اس کی طرف (منہ کر کے) نماز پڑھ لیتے
ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابن نمیر نے کہا: ہمیں ابو خالد احمر نے عبید اللہ سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (کبھی کبھی) اپنی سواری کو سامنے رکھتے ہوئے نماز پڑھ لیتے تھے۔ اور (محمد) بن نمیر نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کو سامنے رکھتے ہوئے (قبلہ رو ہو کر) نماز پڑھی۔
۔ سفیان نے بیان کیا: ہمیں عون بن ابی جحیفہ نے اپنے والد (حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ) سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں مکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ ابطح کے مقام پر چمڑے کے ایک سرخ خیمے میں (قیام پذیر) تھے۔ (ابو جحیفہ نے) کہا: بلال رضی اللہ عنہ آپ کے وضو کا پانی لے کر باہر آئے (بعد ازاں جب آپ نے وضو کر لیا تو) اس میں سے کسی کو پانی مل گیا اور کسی نے (دوسرے سے اس کی) نمی لے لی۔ انہوں نے کہا: پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سرخ حلہ (لباس کے اوپر لمبا چوغہ) پہنے ہوئے نکلے، (ایسا لگتا ہے) جیسے (آج بھی) میں آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ نے وضو کیا اور بلال رضی اللہ عنہ نے اذان کہی، انہوں نے کہا: میں بھی ان کے منہ پیچھے اس طرح اور اس طرف رخ کرنے لگا، (جب) وہ حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح کہہ رہے تھے تو انہوں نے دائیں بائیں رخ کیا، کہا: پھر آپ کے لیے نیزہ گاڑا گیا اور آپ نے آگے بڑھ کر ظہری کی دو رکعتیں (قصر) پڑھائیں، آپ کے آگے سے گدھا اور کتا گزر تا تھا، انہیں روکا نہ جاتا تھا، پھر آپ نے عصر کی دو رکعتیں پڑھائیں اور پھر مدینہ واپسی تک مسلسل دو رکعتیں ہی پڑھاتے رہے۔
۔ عمر بن ابی زائدہ سے روایت ہے کہ مجھے عون بن ابی جحیفہ نے حدیث بیان کی کہ ان کے والد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چمڑے کے سرخ خیمے میں دیکھا (کہا:) اور میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ آپ کے وضو کا پانی باہر لے آئے تو میں نے دیکھا لوگ اس پانی کو لینے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کو اس سے کچھ پانی مل گیا اس نے اس کو بدن پر مل لیا اور جس کو اس سے نہ ملا تو اس نے اپنے ساتھ کے ہاتھ کی نمی سے نمی حاصل کر لی، پھر میں نے بلال کو دیکھا انہوں نے ایک نیزہ نکالا اور کو گاڑ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرخ حلہ پہنے ہوئے نکلے جو آپ نے پنڈلیوں تک اونچا کیا ہوا تھا، آپ نے نیزے کی طرف رخ کر کے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی اور میں نے لوگوں اور چوپایوں کو نیزے کے سامنے سے گزرتے ہوئے دیکھا۔
ابو عمیس نے اور مالک بن مغول دونوں نے اپنی اپنی سند سے عون بن ابی جحفہ سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفیان اور عمرو بن ابی زائدہ کی حدیث کی طرح بیان کیا ہے۔ ان (چاروں سفیان، عمر، ابو عمیس اور مالک) میں بعض دوسروں سے زائد الفاظ بیان کرتے ہیں۔ مالک بن مغول کی حدیث میں ہے: جب دوپہر کا وقت ہوا تو بلال نکلے اور نماز کے لیے اذان دی۔
۔ محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے حکم سے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا: سخت گرمی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بطحا کی طرف نکلے، وضو کر کے اس عالم میں ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھیں اور آپ کے سامنے نیزہ تھا۔ شعبہ نے کہا: عون نے اپنے والد ابو جحیفہ سے (روایت کرتے ہوئے) یہ اضافہ کیا کہ نیزے کی دوسری طرف سے عورتیں اور گدھے گزر رہے تھے۔
۔ (عبد الرحمان) بن مہدی نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) شعبہ نے ہمیں (حکم اور عون کی) دونوں سندوں کے ساتھ سابقہ حدیث کی مانند حدیث بیان کی اور انہوں نے (ابن مہدی) نے حکم کی حدیث میں یہ اضافہ کیا: تو لوگ آپ کے وضو کے بچے ہوئے پانی میں سے (پانی) لینے لگے۔
مالک نے ابن شاب سے، انہوں نے عبید اللہ بن عبد اللہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں گدھی پر سوار ہو کر آیا، ان دنوں میں بلوغت کے قریب تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، میں صف کے سامنے سے گزرا اور اتر کر گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور صف میں داخل ہو گیا تو مجھے کسی نے اس پر نہیں ٹوکا۔
۔ یونس نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا: مجھے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ نے خبر دی کہ انہیں حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، انہوں نے کہا: گدھا صف کے کچھ حصے کے آگے سے گزرا، پھر وہ اس سے اتر کر لوگوں کے ساتھ صف میں مل گئے
سفیان بن عیینہ نے زہری سے اسی سند کے ساتھ مذکورہ روایت بیان کی، کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ میں نماز پڑھا رہے تھے۔ (ابن عباس اپنی سواری پر حج کر رہے تھے۔ یہ واقعہ ان کے ساتھ غالبا منیٰ اور عرفہ دونوں مقامات پر پیش آیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے ہر جگہ سترے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔)
معمر نے بھی زہری سے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی ہے اوراس میں منیٰ یا عرفہ کا تذکرہ کرنے کے بجائے حجۃ الوداع یا فتح مکہ کے دن کا ذکر کیا ہے
|