كِتَاب الصَّلَاةِ نماز کے احکام و مسائل The Book of Prayers 16. باب التَّشَهُّدِ فِي الصَّلاَةِ: باب: نماز میں تشہد کا بیان۔ Chapter: The Tashah-hud In The Prayer حدثنا زهير بن حرب وعثمان بن ابي شيبة ، وإسحاق بن إبراهيم ، قال إسحاق اخبرنا، وقال الآخران: حدثنا جرير ، عن منصور ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، قال: " كنا نقول في الصلاة خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم: السلام على الله، السلام على فلان، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم: إن الله هو السلام، فإذا قعد احدكم في الصلاة، فليقل: التحيات لله، والصلوات، والطيبات، السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، فإذا قالها، اصابت كل عبد لله صالح في السماء والارض، اشهد ان لا إله إلا الله، واشهد ان محمدا عبده ورسوله، ثم يتخير من المسالة ما شاء "،حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وإسحاق بن إبراهيم ، قَالَ إِسْحَاق أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الآخَرَانِ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " كُنَّا نَقُولُ فِي الصَّلَاةِ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ، السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ: إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ، فَإِذَا قَعَدَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ، فَلْيَقُلِ: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ، وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، فَإِذَا قَالَهَا، أَصَابَتْ كُلَّ عَبْدٍ لِلَّهِ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ يَتَخَيَّرُ مِنَ الْمَسْأَلَةِ مَا شَاءَ "، ۔ جریر نے منصور سے، انہوں نے ابو وائل سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کہتے تھے: اللہ پر سلام ہو، فلاں پر سلام ہو۔ (بخاری کی روایت میں جبریل پر میکائیل پر سلام ہو۔) تو ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”بلاشبہ اللہ خود سلام ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھے تو کہے: بقا وبادشاہت، اختیار وعظمت اللہ ہی کےلیے ہے، اور ساری دعائیں اور ساری پاکیزہ چیزیں (بھی اسی کےلیے ہیں)، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو۔ جب کوئی شخص یہ (دعائیہ) کلمات کہے گا تو یہ آسمان و زمین میں اللہ کے ہر نیک بندے تک پہنچیں گے۔ (پھر کہے:) میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کےبندے اور رسول ہیں، پھر جو مانگنا چاہے اس کا انتخاب کر لے۔“ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نماز میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے یہ کہتے تھے، (اَلسَّلاَمُ عَلَی اللہ) اللہ پر سلامتی ہو، (اَلسَّلاَمُ عَلَی فُلاَنٍ)، فلاں پر سلامتی ہو، تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا: ”اللہ خود سلامتی ہے۔ (ہرعیب و کمزوری سے پاک) لہٰذا جب تم میں سے کوئی نماز میں تشہد کے لیے بیٹھے تو یوں کہے: (التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ) جب یہ کلمات کہے گا تو ہر نیک بندہ کو یہ دعا پہنچ جائے گی، آسمان میں ہو یا زمین میں (پھر کہے) (أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ) پھر جو چاہے دعا کرے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
(جریر کے بجائے) شعبہ نے منصور سے باقی ماندہ اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی اور انہوں (شعبہ) نے ”پھر جو مانگنا چاہے اس کا انتخاب کر لے“ (کے کلمات) بیان نہیں کیے۔ امام صاحب نے ایک اور سند اوپر والی روایت بیان کی اور آخری کلمات ”اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے“، بیان نہیں کیے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
منصور کے ایک اور شاگرد زائدہ نے ان سے اسی سند کے ساتھ ان دونوں (جریر اور شعبہ) کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی، لیکن آخری کلمات میں ماشاء (جو چاہے) کی جگہ ما أحب (جو پسند کرے) کے الفاظ کہے۔ امام صاحب نے ایک اور سند سے مذکورہ روایت بیان کی اور آخری کلام میں مَاشَاءَ کی جگہ مَاشَاءَ اورمَااَحَبَّ بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
اعمش نے (ابو وائل) شقیق سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب ہم نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھتے تھے .... (آگے) منصور کی حدیث کی طرح (ہے) اور کہا: ” اس کے بعد دعا کا انتخاب کر لے۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جب ہم نماز میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھتے، آگے منصور کی روایت کی طرح بیان کیا اور آخر میں کہا، ثُمَّ یَتَخَیَّرُ بَعْدَهُ مِنَ الدُّعاَءِ، بعد میں دعا کا انتخاب کر لے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
۔ عبد اللہ بن سخبرہ نے کہا: میں نے حضرت ابن مسعود سے سنا، کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا، میری ہتھیلی آپ کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھی، (بالکل اسی طرح) جیسے آپ مجھے قرآنی سورت کی تعلیم دیتے تھے۔ اور انہوں نے (ابن سخبرہ) نے تشہد اسی طرح بیان کیا جس طرح سابقہ راویوں نے بیان کیا۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد اس صورت میں سکھایا کہ میری ہتھیلی آپصلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھی، جیسا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم مجھے قرآنی سورت کی تعلیم دیتے تھے، اور تشہد مذکورہ راویوں کی طرح بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث . ح وحدثنا محمد بن رمح بن المهاجر ، اخبرنا الليث ، عن ابي الزبير ، عن سعيد بن جبير ، وعن طاوس ، عن ابن عباس ، انه قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يعلمنا التشهد، كما يعلمنا السورة من القرآن، فكان يقول: التحيات المباركات، الصلوات الطيبات لله، السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، اشهد ان لا إله إلا الله، واشهد ان محمدا رسول الله "، وفي رواية ابن رمح: كما يعلمنا القرآن.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، وَعَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُعَلِّمُنَا التَّشَهُّدَ، كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ، فَكَانَ يَقُولُ: التَّحِيَّاتُ الْمُبَارَكَاتُ، الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ "، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ رُمْحٍ: كَمَا يُعَلِّمُنَا الْقُرْآنَ. امام مسلم نے قتیبہ بن سعید اور محمد بن رمح بن مہاجر کی سندوں سے لیث سے، انہوں نے ابو زبیر سے، انہوں نے سعید بن جبیر اور طاؤس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تشہد اسی طرح سکھاتے جس طرح قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے، چنانچہ آپ فرماتے تھے: ”بقا وبادشاہت، عظمت و اختیار اور کثرت خیر، ساری دعائیں اور ساری پاکیزہ چیزیں اللہ ہی کےلیے ہیں۔ آپ پر سلام ہو اے نبی! اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔“ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تشہد اس طرح سکھاتے تھے، جیسے ہمیں قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: (اَلتَّحِیَّاتُ اَلْمُبَارَکاَتُ، ادب و تعظیم کے سارے خیروبرکت والے کلمات اللہ کے لیے مخصوص ہیں، یا وہی ان کا حقدار ہے تمام عبادات، تمام صدقات اللہ ہی کے واسطے ہیں، تم پر سلام ہو اے نبی! اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے سب نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی عبادت اور بندگی کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور ابن رمح کی حدیث میں یُعَلِّمُنَا السُّوْرَةَ مِنَ الْقُرْآن کی بجائے کَمَا یُعَلِّمُنَا اْلقُرْآن ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبد الرحمن بن حمید نے کہا: مجھے ابو زبیر نے طاؤس کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تشہد یوں سکھاتے تھے جیسے آپ ہمیں قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تشہد قرآن کی سورت کی طرح ہی سکھاتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا سعيد بن منصور ، وقتيبة بن سعيد ، وابو كامل الجحدري واللفظ لابي كامل، ومحمد بن عبد الملك الاموي ، قالوا: حدثنا ابو عوانة ، عن قتادة ، عن يونس بن جبير ، عن حطان بن عبد الله الرقاشي ، قال: صليت مع ابي موسى الاشعري صلاة، فلما كان عند القعدة، قال رجل من القوم: اقرت الصلاة بالبر والزكاة؟ قال: فلما قضى ابو موسى الصلاة وسلم، انصرف، فقال: ايكم القائل كلمة كذا وكذا، قال: فارم القوم، ثم قال: ايكم القائل كلمة كذا وكذا، فارم القوم، فقال: لعلك يا حطان قلتها، قال: ما قلتها، ولقد رهبت ان تبكعني بها، فقال رجل من القوم انا قلتها، ولم ارد بها إلا الخير، فقال ابو موسى : اما تعلمون كيف تقولون في صلاتكم؟ رسول الله صلى الله عليه وسلم خطبنا، فبين لنا سنتنا، وعلمنا صلاتنا، فقال: إذا صليتم، فاقيموا صفوفكم، ثم ليؤمكم احدكم، فإذا كبر فكبروا، وإذ قال: غير المغضوب عليهم ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7، فقولوا: آمين، يجبكم الله، فإذا كبر وركع، فكبروا واركعوا، فإن الإمام يركع قبلكم، ويرفع قبلكم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فتلك بتلك، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: اللهم ربنا لك الحمد، يسمع الله لكم، فإن الله تبارك وتعالى، قال على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم: سمع الله لمن حمده، وإذا كبر وسجد، فكبروا، واسجدوا، فإن الإمام يسجد قبلكم، ويرفع قبلكم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فتلك بتلك، وإذا كان عند القعدة، فليكن من اول قول احدكم: التحيات الطيبات، الصلوات لله، السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، اشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله "،حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ وَاللَّفْظُ لِأَبِي كَامِلٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الأُمَوِيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ صَلَاةً، فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ، قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أُقِرَّتِ الصَّلَاةُ بِالْبِرِّ وَالزَّكَاةِ؟ قَالَ: فَلَمَّا قَضَى أَبُو مُوسَى الصَّلَاةَ وَسَلَّمَ، انْصَرَفَ، فَقَالَ: أَيُّكُمُ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، ثُمّ قَالَ: أَيُّكُمُ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا، فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، فَقَالَ: لَعَلَّكَ يَا حِطَّانُ قُلْتَهَا، قَالَ: مَا قُلْتُهَا، وَلَقَدْ رَهِبْتُ أَنْ تَبْكَعَنِي بِهَا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ أَنَا قُلْتُهَا، وَلَمْ أُرِدْ بِهَا إِلَّا الْخَيْرَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى : أَمَا تَعْلَمُونَ كَيْفَ تَقُولُونَ فِي صَلَاتِكُمْ؟ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا، فَبَيَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا، وَعَلَّمَنَا صَلَاتَنَا، فَقَالَ: إِذَا صَلَّيْتُمْ، فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، ثُمَّ لَيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذْ قَالَ: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، فَقُولُوا: آمِينَ، يُجِبْكُمُ اللَّهُ، فَإِذَا كَبَّرَ وَرَكَعَ، فَكَبِّرُوا وَارْكَعُوا، فَإِنَّ الإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ، وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتِلْكَ بِتِلْكَ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، يَسْمَعُ اللَّهُ لَكُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَإِذَا كَبَّرَ وَسَجَدَ، فَكَبِّرُوا، وَاسْجُدُوا، فَإِنَّ الإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ، وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتِلْكَ بِتِلْكَ، وَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ، فَلْيَكُنْ مِنْ أَوَّلِ قَوْلِ أَحَدِكُمْ: التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ، الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ "، ابو عوانہ نے قتادہ سے، انہوں نے یونس بن جبیر سے اور انہوں نے حطان بن عبد اللہ رقاشی سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک نماز پڑھی، جب وہ قعدہ (نماز میں تشہد کے لیے بیٹھنے) کے قریب تھے تو لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: نماز کو نیکی اور زکاۃ کے ساتھ رکھا گیا ہے؟ جب ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے نماز پوری کر لی تو مڑے اور کہا: تم میں سے یہ یہ بات کہنے والا کون تھا؟ تو سب لوگ مارے ہیبت کے چپ رہے، انہوں نے پھر کہا: تم میں سے یہ یہ بات کہنے والا کون تھا؟ تو لوگ ہیبت کے مارے پھر چپ رہے تو انہوں نے کہا: اے حطان! لگتا ہے تو نے یہ بات کہی؟ انہوں نے کہا: میں نے یہ نہیں کہا، البتہ مجھے ڈر تھا کہ آپ اس کے سبب میری سرزنش کریں گے۔ تو لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: میں نے یہ بات کہی تھی اور میں نے اس سے بھلائی کے سوا اور کچھ نہ چاہا تھا۔ تو ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم نہیں جانتے کہ تمہیں اپنی نماز میں کیسے کہنا چاہیے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا، آپ نے ہمارے لیے ہمارا طریقہ واضح کیا اور ہمیں ہماری نماز سکھائی۔ آپ نے فرمایا: ”جب تم نماز پڑھو تو اپنی صفوں کو سیدھا کرو، پھر تم میں سے ایک شخص تمہاری امامت کرائے، جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ ﴿غیر المغضوب علیہم والا الضالین﴾ کہے تو تم آمین کہو، اللہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا۔ پھر جب وہ تکبیر کہے اور رکوع کرے تو تم تکبیر کہو اور رکوع کرو، امام تم سے پہلے رکوع میں جائے گا اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تو (مقتدی کی طرف سے رکوع میں جانےکی) یہ (تاخیر) اس (تاخیر) کا بدل ہو کی (جو رکوع سے سر اٹھانے میں ہو گی) اور جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللہم ربنا لک الحمد کہو، اللہ تمہاری (بات) سنے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے فرمایا ہے: اللہ نے اسے سن لیا جس نے اس کی حمد بیان کی اور جب امام تکبیر کہے اور سجدہ کرے تو تم تکبیر کہو اور سجدہ کرو، امام تم سے پہلے سجدہ کرے گا اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تو یہ (تاخیر) اس (تاخیر) کابدل ہو گی اور جب وہ قعدہ میں ہو تو تمہارا پہلا بول (یہ) ہو: بقا وبادشاہت، اختیار وعظمت، سب پاک چیزیں اور ساری دعائیں اللہ کےلیے ہیں۔ اے نبی! آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کےسوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔“ حطان بن عبداللہ رقاشی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک نماز ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی معیت میں پڑھی تو جب بیٹھنے کا وقت آیا، ایک شخص نے کہا، نماز نیکی اور زکوٰة کے ساتھ ملائی گئی ہے، جب ابو موسیٰ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے نماز پوری کر لی اور سلام پھیر کر منہ موڑا تو پوچھا، یہ یہ کلمہ تم میں سے کس نے کہا ہے؟ سب لوگ چپ رہے انہوں نے پھر پوچھا، تم میں سے کس نے یہ بات کہی؟ تو لوگ چپ رہے تو انہوں نے کہا، اے حطان! شاید تو نے یہ کلمہ کہا ہے؟ میں نے کہا میں نے نہیں کہا ہے، مجھے خوف تھا کہ آپ مجھے اس کے سبب سرزنش کریں گے تو لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا، میں نے یہ کلمہ کہا ہے، اور میں نے اس سے صرف خیر ہی کا ارادہ کیا ہے تو ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، کیا تم جانتے نہیں ہو، تمہیں اپنی نماز میں کیا کہنا چاہئے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور ہمارے لیے، ہمارا طریقہ واضح کیا اور ہمیں ہماری نماز سکھائی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنی صفوں کو سیدھا کرو، پھر تم میں سے ایک تمہاری امامت کرائے، جب وہ تکبیر کہہ چکے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ ﴿غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاَ الضَّالِّیْن﴾ کہے تو تم آمین کہو، اللہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا، وہ تمہیں شرف قبولیت بخشے گا، اور جب وہ تکبیر کہے اور رکوع کرے تو تم تکبیر کہہ کر رکوع کرو اور امام تم سے پہلے رکوع میں جاتا ہے اور تم سے پہلے اٹھتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تقدیم و تاخیر سے برابر ہو گیا۔ اور جب امام سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہے تو تم اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْد کہو، اے اللہ، ہمارے رب تو ہی حمد کا حقدار ہے۔ اللہ تمہاری دعا سنے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ نے جس نے اس کی حمد و تعریف سن لی۔ اور جب امام اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر سجدہ کرے تو تم اَللّٰہُ اَکْبَر کہو اور سجدہ کرو، کیونکہ امام تم سے پہلے سجدہ میں جاتا اور تم سے پہلے سجدہ سے اٹھتا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قبل و بعد (تقدیم و تاخیر) سے کام برابر ہو گیا، (امام نے سجدہ پہلے کیا، پہلے اٹھا، تم نے سجدہ بعد میں کيا، اور بعد میں اٹھے) اور جب بیٹھنے کا وقت آئے تو تم اس سے آغاز کرو قولی، بدنی اور مالی عبادتیں، اللہ ہی کے لیے ہیں، سلامتی ہو، اے نبیصلی اللہ علیہ وسلم ! آپصلی اللہ علیہ وسلم پر اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے سب نیک بندوں پر، میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت اور بندگی کے لائق نہیں اور میں اس کی بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور پیغمبر (فرستادہ) ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة . ح وحدثنا ابو غسان المسمعي ، حدثنا معاذ بن هشام ، حدثنا ابي . ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا جرير ، عن سليمان التيمي ، كل هؤلاء، عن قتادة ، في هذا الإسناد بمثله، وفي حديث جرير، عن سليمان، عن قتادة: من الزيادة، وإذا قرا فانصتوا، وليس في حديث احد منهم: فإن الله، قال على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم سمع الله لمن حمده، إلا في رواية ابي كامل وحده، عن ابي عوانة، قال ابو إسحاق، قال ابو بكر ابن اخت ابي النضر: في هذا الحديث، فقال مسلم: تريد احفظ من سليمان؟ فقال له ابو بكر: فحديث ابي هريرة، فقال: هو صحيح، يعني وإذا قرا فانصتوا، فقال: هو عندي صحيح، فقال: لم، لم تضعه ها هنا؟ قال: ليس كل شيء عندي صحيح وضعته ها هنا، إنما وضعت ها هنا ما اجمعوا عليه،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، كُلُّ هَؤُلَاءِ، عَنْ قَتَادَةَ ، فِي هَذَا الإِسْنَادِ بِمِثْلِهِ، وَفِي حَدِيثِ جَرِيرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ قَتَادَةَ: مِنَ الزِّيَادَةِ، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ أَحَدٍ مِنْهُمْ: فَإِنَّ اللَّهَ، قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، إِلَّا فِي رِوَايَةِ أَبِي كَامِلٍ وَحْدَهُ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، قَالَ أَبُو إِسْحَاق، قَالَ أَبُو بَكْرِ ابْنُ أُخْتِ أَبِي النَّضْرِ: فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ مُسْلِمٌ: تُرِيدُ أَحْفَظَ مِنْ سُلَيْمَانَ؟ فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ: فَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ: هُوَ صَحِيحٌ، يَعْنِي وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، فَقَالَ: هُوَ عِنْدِي صَحِيحٌ، فَقَالَ: لِمَ، لَمْ تَضَعْهُ هَا هُنَا؟ قَالَ: لَيْسَ كُلُّ شَيْءٍ عِنْدِي صَحِيحٍ وَضَعْتُهُ هَا هُنَا، إِنَّمَا وَضَعْتُ هَا هُنَا مَا أَجْمَعُوا عَلَيْهِ، ابو اسامہ نے سعید بن ابی عروبہ سے حدیث بیان کی، نیز معاذ بن ہشام نے اپنے والد سے حدیث بیان کی، اسی طرح جریر نے سلیمان تیمی سے خبر دی، ان سب (ابن ابی عروبہ، ہشام اور سلیمان) نے قتادہ سے اسی (سابقہ) حدیث کے مانند روایت کی، البتہ قتادہ سے سلیمان اور ان سے جریر کی بیان کردہ حدیث میں یہ اضافہ ہے: ” جب امام پڑھے تو تم غور سے سنو۔“ اور ابو عوانہ کے شاگرد کامل کی حدیث کے علاوہ ان میں سے کسی کی حدیث میں: ”اللہ عزوجل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے فرمایا ہے: ” اللہ نے اسے سن لیا جس نے اس کی حمد کی۔“ کے الفاظ نہیں ہیں۔ ابو اسحاق نے کہا: ابو نضر کے بھانجے ابو بکر نے اس حدیث کے متعلق بات کی تو امام مسلم نے کہا: آپ کو سلیمان سے بڑا حافظ چاہیے؟ اس پر ابو بکر نے امام مسلم سے کہا: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث؟ پھر (ابو بکر نے) کہا: وہ صحیح ہے، یعنی (یہ اضافہ کہ) جب امام پڑھے تو تم خاموش رہو۔ امام مسلم نے (جوابا) کہا: وہ میرے نزدیک بھی صحیح ہے۔ تو ابو بکر نے کہا: آپ نے اسے یہاں کیوں نہ رکھا (درج کیا)؟ (امام مسلم نے جواباً) کہا: ہر وہ چیز جو میرے نزدیک صحیح ہے، میں نے اسے یہاں نہیں رکھا۔ یہاں میں نے صرف ان (احادیث) کو رکھا جن (کی صحت) پر انہوں (محدثین) نے اتفاق کیا ہے۔ امام صاحب نے مختلف اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کی اور اس میں یہ اضافہ بیان کیا۔ کہ جب امام پڑھے تو تم خاموش رہو، اور ان میں سے کسی کی حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلوایا ہے، سَمِعَ اللُّٰہ لِمَنْ حَمِدَہ، صرف ابو کامل اکیلا ہی ابو عوانہ سے یہ الفاظ نقل کرتا ہے۔ ابو اسحاق کہتے ہیں، ابو نضر کے بھانجے، ابوبکر نے اس حدیث پر بحث کی تو امام مسلم نے جوب دیا آپ کو سلیمان سے زیادہ حافظ مطلوب ہے، (یعنی سلیمان حفظ و ضبط میں پختہ ہے، اس لیے اس کا اضافہ مقبول ہے) تو ابوبکر نے امام مسلم سے پوچھا، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث اِذَا قَرأَ فَانْصِتُوْا (جب امام قرأت کرے تم خاموش رہو)، کیسی ہے؟ امام صاحب نے جواب دیا، وہ صحیح ہے اورمیں اس کو صحیح سمجھتا ہوں تو ابوبکر نے پوچھا تو آپ نے اسے اپنی کتاب میں بیان کیوں نہیں کیا؟ امام صاحب نے جواب دیا: ہر وہ حدیث جو میرے نزدیک صحیح ہے، میں نے اس کو یہاں نقل نہیں کیا، یہاں تو میں نے ان ہی کی احادیث کو بیان کیا ہے، جن کی صحت پر سب کا اتفاق ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
قتادہ کے ایک اور شاگرد معمر نے اسی سند کے ساتھ مذکورہ بالا حدیث روایت کی اور (اپنی) حدیث میں کہا: ”چنانچہ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے فیصلہ کر دیا: (کہ) اللہ نے اسے سن لیا جس نے اس کی حمد بیان کی (قال کے بجائے قضی کالفظ روایت کیا۔) امام صاحب نے ایک اور سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کی ہے اور اس کے یہ الفاظ بیان کیے: فَاِنَّ اللہَ عَزَّوَجَلَّ قَضٰی عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّهِ صلی اللہ علیہ وسلم (اوپر کی روایت میں قَضیٰ کی بجائے قَالَ کا لفظ گزرا ہے)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|