وعن ابي نوفل معاوية بن مسلم قال: رايت عبد الله بن الزبير على عقبة المدينة قال فجعلت قريش تمر عليه والناس حتى مر عليه عبد الله بن عمر فوقف عليه فقال: السلام عليك ابا خبيب السلام عليك ابا خبيب السلام عليك ابا خبيب اما والله لقد كنت انهاك عن هذا اما والله لقد كنت انهاك عن هذا اما والله لقد كنت انهاك عن هذا اما والله إن كنت ما علمت صواما قواما وصولا للرحم اما والله لامة انت شرها لامة سوء-وفي رواية لامة خير-ثم نفذ عبد الله بن عمر فبلغ الحجاج موقف عبد الله وقوله فارسل إليه فانزل عن جذعه فالقي في قبور اليهود ثم ارسل إلى امه اسماء بنت ابي بكر فابت ان تاتيه فاعاد عليها الرسول لتاتيني او لابعثن إليك من يسحبك بقرونك. قال: فابت وقالت: والله لا آتيك حتى تبعث إلي من يسحبني بقروني. قال: فقال: اروني سبتي فاخذ نعليه ثم انطلق يتوذف حتى دخل عليها فقال: كيف رايتني صنعت بعدو الله؟ قالت: رايتك افسدت عليه دنياه وافسد عليك آخرتك بلغني انك تقول له: يا ابن ذات النطاقين انا والله ذات النطاقين اما احدهما فكنت ارفع به طعام رسول الله صلى الله عليه وسلم وطعام ابي بكر من الدواب واما الآخر فنطاق المراة التي لا تستغني عنه اما ان رسول الله صلى الله عليه وسلم حدثنا: «ان في ثقيف كذابا ومبيرا» . فاما الكذاب فرايناه واما المبير فلا إخالك إلا إياه. قال فقام عنها ولم يراجعها. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي نَوْفَلٍ مُعَاوِيَةَ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ: رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ عَلَى عَقَبَةِ الْمَدِينَةِ قَالَ فَجَعَلَتْ قُرَيْشٌ تَمُرُّ عَلَيْهِ وَالنَّاسُ حَتَّى مَرَّ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَوقف عَلَيْهِ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنْ كُنْتَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا وَصُولًا لِلرَّحِمِ أَمَا وَاللَّهِ لَأُمَّةٌ أَنْتَ شَرُّهَا لَأُمَّةُ سَوْءٍ-وَفِي رِوَايَةٍ لَأُمَّةُ خَيْرٍ-ثُمَّ نَفَذَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَبَلَغَ الْحَجَّاجَ مَوْقِفُ عَبْدِ اللَّهِ وَقَوْلُهُ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَأُنْزِلَ عَنْ جِذْعِهِ فَأُلْقِيَ فِي قُبُورِ الْيَهُودِ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى أُمِّهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ فَأَبَتْ أَنْ تَأْتِيَهُ فَأَعَادَ عَلَيْهَا الرَّسُولَ لَتَأْتِيَنِّي أَوْ لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْكِ مَنْ يَسْحَبُكِ بِقُرُونِكِ. قَالَ: فَأَبَتْ وَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَا آتِيكَ حَتَّى تَبْعَثَ إِلَيَّ من يسحبُني بقروني. قَالَ: فَقَالَ: أَرُونِي سِبْتِيَّ فَأَخَذَ نَعْلَيْهِ ثُمَّ انْطَلَقَ يَتَوَذَّفُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهَا فَقَالَ: كَيْفَ رَأَيْتِنِي صَنَعْتُ بِعَدُوِّ اللَّهِ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُكَ أَفْسَدْتَ عَلَيْهِ دُنْيَاهُ وَأَفْسَدَ عَلَيْكَ آخِرَتَكَ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَقُولُ لَهُ: يَا ابْنَ ذَاتِ النِّطَاقَيْنِ أَنَا وَاللَّهِ ذَاتُ النِّطَاقَيْنِ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكُنْتُ أَرْفَعُ بِهِ طَعَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَعَامَ أَبِي بَكْرٍ مِنَ الدَّوَابِّ وَأَمَّا الْآخَرُ فنطاق المرأةِ الَّتِي لَا تَسْتَغْنِي عَنهُ أما أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدثنَا: «أَن فِي ثَقِيف كذابا ومبيرا» . فَأَما الْكَذَّابُ فَرَأَيْنَاهُ وَأَمَّا الْمُبِيرُ فَلَا إِخَالُكَ إِلَّا إِيَّاه. قَالَ فَقَامَ عَنْهَا وَلم يُرَاجِعهَا. رَوَاهُ مُسلم
ابو نوفل معاویہ بن مسلم بیان کرتے ہیں، میں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو مدینے کی گھاٹی پر (سولی پر لٹکتے ہوئے) دیکھا، قریشی اور دوسرے لوگ ان کے پاس سے گزرتے رہے حتیٰ کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزرے اور وہاں ٹھہر کر فرمایا: ابو خبیب! تم پر سلام، ابو خبیب! تم پر سلام، ابو خبیب! تم پر سلام، اللہ کی قسم! کیا میں تمہیں اس (خلافت کے معاملے) سے منع نہیں کرتا تھا، اللہ کی قسم! کیا میں نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا تھا؟ اللہ کی قسم! میں تمہیں بہت روزے رکھنے والا، بہت زیادہ قیام کرنے والا اور صلہ رحمی کرنے والا ہی جانتا ہوں، سن لو! اللہ کی قسم! جو لوگ تجھے برا خیال کرتے ہیں حقیقت میں وہ خود برے ہیں۔ ایک دوسری روایت میں ہے، (جو تمہیں برا سمجھتے ہیں کیا) وہ لوگ اچھے ہیں؟ پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ چلے گئے، حجاج کو عبداللہ کا مؤقف اور ان کی بات پہنچی تو اس نے انہیں بلا بھیجا، ان (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ) کو سولی سے اتار دیا گیا اور انہیں یہودیوں کے قبرستان میں ڈال دیا گیا۔ پھر حجاج نے ان کی والدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا تو انہوں نے آنے سے انکار کر دیا، پھر اس نے دوبارہ پیغام بھیجا کہ آپ آ جائیں ورنہ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جو تمہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ لائے گا، راوی بیان کرتے ہیں، انہوں نے انکار کیا اور کہا، اللہ کی قسم! میں تیرے پاس نہیں آؤں گی حتیٰ کہ تو اس شخص کو میرے پاس بھیجے جو میرے بالوں سے پکڑ کر مجھے گھسیٹے، راوی بیان کرتے ہیں، حجاج نے کہا: میرے جوتے مجھے دو، اس نے اپنے جوتے پہنے اور تیز تیز چلتا ہوا ان تک پہنچ گیا، اور کہا: بتاؤ! اللہ کے دشمن کے ساتھ میں نے کیسا سلوک کیا؟ اسماء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں سمجھتی ہوں کہ تو نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کی دنیا خراب کی اور اس نے تیری آخرت برباد کر دی۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ تو (توہین کے انداز میں) اسے ذات النطاقین (دو ازار والی) کا بیٹا کہتا ہے، اللہ کی قسم! میں ذات النطاقین ہوں، ان (ازار بندوں) میں سے ایک کے ساتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کھانے کو چوپایوں سے بچانے کے لیے، اور رہا دوسرا تو اس سے کوئی بھی عورت بے نیاز نہیں ہو سکتی، سن لو! کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حدیث بیان فرمائی کہ ”ثقیف میں ایک کذاب اور ایک ظالم ہو گا۔ “ رہا کذاب تو ہم اسے دیکھ چکے، اور رہا ظالم تو میرا خیال ہے کہ وہ تم ہی ہو۔ راوی بیان کرتے ہیں، وہ ان کے پاس سے چلا گیا اور پھر ان کے پاس دوبارہ نہیں آیا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (229/ 2545)»