تفسیر قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے فرمان ((لا تحسبنّ الّذین ....)) کے متعلق (تفسیر سورۃ آل عمران)۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ منافق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایسے تھے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی پر جاتے تو وہ پیچھے رہ جاتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے گھر میں بیٹھنے سے خوش ہوتے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ کر آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذر کرتے اور قسم کھاتے اور چاہتے کہ لوگ ان کی ان کاموں پر تعریف کریں جو انہوں نے نہیں کئے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”مت گمان کرو ان لوگوں کو جو اپنے کئے سے خوش ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی ایسے کاموں پر تعریف کی جائے جو انہوں نے نہیں کئے، پس ان کے بارہ میں یہ گمان ہرگز نہ کرو کہ یہ عذاب سے چھٹکارا پائیں گے ان کو دکھ کی مار ہے“۔
حمید بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس جا اور کہہ کہ اگر ہم میں سے ہر اس آدمی کو عذاب ہو جو اپنے کئے پر خوش ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ اس کی اس بات پر تعریف کریں جو اس نے نہیں کی، پھر تو ہم سب کو عذاب ہو گا (کیونکہ ہم سب میں یہ عیب موجود ہے) تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تمہیں اس آیت سے کیا تعلق ہے؟ یہ آیت تو اہل کتاب کے حق میں اتری ہے۔ پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت ((واذ اخذ اﷲ ....)) آخر تک پڑھی اور پھر ((لا تحسبنّ الّذین ....)) آیت پڑھی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب سے کوئی بات پوچھی تو انہوں نے اس کو چھپایا اور اس کے بدلے دوسری بات بتائی۔ پھر اس حال میں نکلے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سمجھایا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ بات بتا دی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی تعریف کے طلبگار ہوئے اور دل میں اپنے کئے پر خوش ہوئے (یعنی اپنی اصل بات کے چھپانے پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھی تھی تو اللہ تعالیٰ انہیں کو فرماتا ہے کہ ان کو عذاب ہو گا اور مراد وہی اہل کتاب ہیں)۔
|