تفسیر قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے فرمان ((ولا تجھر بصلاتک....)) کے متعلق (تفسیر سورۃ الاسراء، سورۃ بنی اسرائیل)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت ”تم اپنی نماز کو نہ زیادہ اونچی آواز میں پڑھو اور نہ بالکل ہی آہستہ، بلکہ متوسط طریقہ اختیار کرو“ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوف کی وجہ سے ایک گھر میں پوشیدہ تھے۔ واقعہ یہ ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو نماز پڑھاتے تو قرآن بآواز بلند پڑھتے۔ پس جب کہ مشرک قرآن کریم کی آواز سنتے تو قرآن کریم، اس کو نازل کرنے والے (یعنی اللہ تعالیٰ) اور جس پر نازل ہوا (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو گالیاں دیتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ”آپ اتنے زور سے نماز (میں قرآن) نہ پڑھیں“ کہ جسے مشرک سن سکیں ”اور اتنے آہستہ بھی نہ (قرآن) پڑھیں“ کہ آپ کے اصحاب بھی نہ سن سکیں ”بلکہ درمیانی آواز میں (قرآن) پڑھئے“ آہستہ اور اونچی آواز کے درمیان درمیان۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ((ولا تجھر بصلاتک....)) کے متعلق کہتی ہیں کہ یہ دعا کے بارے نازل ہوئی (یعنی دعا نہ بہت زور سے مانگو اور نہ بہت آہستہ آواز میں)۔
|