كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: حج کے احکام و مناسک 97. باب مَا جَاءَ فِي الاِشْتِرَاطِ فِي الْحَجِّ باب: حج میں شرط لگا لینے کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ضباعہ بنت زبیر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں، تو کیا میں شرط لگا سکتی ہوں؟ (کہ اگر کوئی عذر شرعی لاحق ہوا تو احرام کھول دوں گی) آپ نے فرمایا: ”ہاں، تو انہوں نے پوچھا: میں کیسے کہوں؟ آپ نے فرمایا: «لبيك اللهم لبيك لبيك محلي من الأرض حيث تحبسني» ”حاضر ہوں اے اللہ حاضر ہوں حاضر ہوں، میرے احرام کھولنے کی جگہ وہ ہے جہاں تو مجھے روک دے“۔
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر، اسماء بنت ابی بکر اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے، وہ حج میں شرط لگا لینے کو درست سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے شرط کر لی پھر اسے کوئی مرض یا عذر لاحق ہوا تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ حلال ہو جائے اور اپنے احرام سے نکل آئے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۴- بعض اہل علم حج میں شرط لگانے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے شرط لگا بھی لی تو اسے احرام سے نکلنے کا حق نہیں، یہ لوگ اسے اس شخص کی طرح سمجھتے ہیں جس نے شرط نہیں لگائی ہے ۱؎۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحج 22 (1776)، سنن النسائی/الحج 60 (2767)، سنن الدارمی/المناسک 15 (1852)، (تحفة الأشراف: 6232) (صحیح) و أخرجہ: سنن النسائی/الحج 59 (2766)، و60 (2768)، سنن ابن ماجہ/المناسک 24 (2938)، مسند احمد (1/3537) من غیر ہذا الطریق۔»
وضاحت: ۱؎: یہ لوگ ضباعہ بنت زبیر کی روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ضباعہ ہی کے ساتھ خاص تھا، ایک تاویل یہ بھی کی گئی ہے کہ «محلي حيث حبسني» ”میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو مجھے روک دے“ کا معنی «محلي حيث حبسني الموت» ”میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو نے مجھے موت دے دی“ ہے کیونکہ مر جانے سے احرام خود بخود ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ دونوں تاویلیں باطل ہیں، ایک قول یہ ہے کہ شرط خاص عمرہ سے تحلل کے ساتھ ہے حج کے تحلل سے نہیں، لیکن ضباعہ کا واقعہ اس قول کو باطل کر دیتا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2938)
|