كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: حج کے احکام و مناسک 19. باب مَا جَاءَ فِي لُبْسِ السَّرَاوِيلِ وَالْخُفَّيْنِ لِلْمُحْرِمِ إِذَا لَمْ يَجِدِ الإِزَارَ وَالنَّعْلَيْنِ باب: محرم کے پاس تہبند اور جوتے نہ ہوں تو پاجامہ اور موزے پہنے۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”محرم کو جب تہبند میسر نہ ہو تو پاجامہ پہن لے اور جب جوتے میسر نہ ہوں تو «خف» (چمڑے کے موزے) پہن لے“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب محرم تہ بند نہ پائے تو پاجامہ پہن لے، اور جب جوتے نہ پائے تو «خف» (چرمی موزے) پہن لے۔ یہ احمد کا قول ہے، ۴- بعض نے ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث کی بنیاد پر جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہا ہے کہ جب وہ جوتے نہ پائے تو «خف» (چرمی موزے) پہنے اور اسے کاٹ کر ٹخنے کے نیچے کر لے، سفیان ثوری، شافعی، اور مالک اسی کے قائل ہیں۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/جزاء الصید 15 (1841)، و16 (1843)، واللباس 14 (5804)، و37 (5853)، صحیح مسلم/الحج 81 (117)، سنن النسائی/الحج 32 (2672، 2673)، و37 (2680)، والزینة 98 (5327)، سنن ابن ماجہ/المناسک 20 (2931)، مسند احمد (1/215، 221، 228، 279، 337) (تحفة الأشراف: 5375) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اسی حدیث سے امام احمد نے استدلال کرتے ہوئے چمڑے کے موزہ کو بغیر کاٹے پہننے کی اجازت دی ہے، حنابلہ کا کہنا ہے کہ قطع (کاٹنا) فساد ہے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے فساد وہ ہے جس کی شرع میں ممانعت وارد ہو، نہ کہ وہ جس کی شریعت نے اجازت دی ہو، بعض نے موزے کو پاجامے پر قیاس کیا ہے، اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ نص کی موجودگی میں قیاس درست نہیں، رہا یہ مسئلہ کہ جوتا نہ ہونے کی صورت میں موزہ پہننے والے پر فدیہ ہے یا نہیں تو اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے، ظاہر حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ فدیہ نہیں ہے، لیکن حنفیہ کہتے ہیں فدیہ واجب ہے، ان کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر فدیہ واجب ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے ضرور بیان فرماتے کیونکہ «تأخير البيان عن وقت الحاجة» جائز نہیں۔ (یعنی ضرورت کے کے وقت مسئلہ کی وضاحت ہو جانی چاہیئے، وضاحت اور بیان ٹالا نہیں جا سکتا ہے)۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2931)
|