(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، ان تلبية النبي صلى الله عليه وسلم كانت: " لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك ". قال: وفي الباب عن ابن مسعود، وجابر، وعائشة، وابن عباس، وابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح، والعمل عليه عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول سفيان، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قال الشافعي: وإن زاد في التلبية شيئا من تعظيم الله فلا باس إن شاء الله، واحب إلي ان يقتصر على تلبية رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال الشافعي: وإنما قلنا: لا باس بزيادة تعظيم الله فيها، لما جاء عن ابن عمر وهو حفظ التلبية عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم زاد ابن عمر في تلبيته من قبله لبيك والرغباء إليك والعمل.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ تَلْبِيَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ: " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنْ زَادَ فِي التَّلْبِيَةِ شَيْئًا مِنْ تَعْظِيمِ اللَّهِ فَلَا بَأْسَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَى تَلْبِيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنَّمَا قُلْنَا: لَا بَأْسَ بِزِيَادَةِ تَعْظِيمِ اللَّهِ فِيهَا، لِمَا جَاءَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَهُوَ حَفِظَ التَّلْبِيَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ زَادَ ابْنُ عُمَرَ فِي تَلْبِيَتِهِ مِنْ قِبَلِهِ لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك»”حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ سب تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اور سلطنت بھی، تیرا کوئی شریک نہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، جابر، ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا، ابن عباس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۴- شافعی کہتے ہیں: اگر وہ اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات کا اضافہ کر لے تو کوئی حرج نہیں ہو گا - ان شاء اللہ- لیکن میرے نزدیک پسندیدہ بات یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ پر اکتفا کرے۔ شافعی کہتے ہیں: ہم نے جو یہ کہا کہ ”اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات بڑھا لینے میں کوئی حرج نہیں تو اس دلیل سے کہ ابن عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلبیہ یاد کیا پھر اپنی طرف سے اس میں «لبيك والرغباء إليك والعمل»”حاضر ہوں، تیری ہی طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے“ کا اضافہ کیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جابر بن عبداللہ کی ایک روایت میں ہے کہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ میں اپنی طرف سے «ذا المعارج» اور اس جیسے کلمات بڑھاتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سنتے تھے لیکن کچھ نہ فرماتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا اضافہ جائز ہے، اگر جائز نہ ہوتا تو آپ منع فرما دیتے، آپ کی خاموشی تلبیہ کے مخصوص الفاظ پر اضافے کے جواز کی دلیل ہے، ابن عمر رضی الله عنہما کا یہ اضافہ بھی اسی قبیل سے ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن نافع، عن ابن عمر، انه اهل فانطلق يهل، فيقول: " لبيك اللهم لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك " قال: وكان عبد الله بن عمر، يقول: هذه تلبية رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان يزيد من عنده في اثر تلبية رسول الله صلى الله عليه وسلم " لبيك لبيك وسعديك، والخير في يديك، لبيك والرغباء إليك، والعمل " قال: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ أَهَلَّ فَانْطَلَقَ يُهِلُّ، فَيَقُولُ: " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ " قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، يَقُولُ: هَذِهِ تَلْبِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ يَزِيدُ مِنْ عِنْدِهِ فِي أَثَرِ تَلْبِيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ، لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ، وَالْعَمَلُ " قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
نافع کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نے تلبیہ پکارا اور تلبیہ پکارتے ہوئے چلے، وہ کہہ رہے تھے: «لبيك اللهم لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے تھے: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ ہے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ کے اخیر میں اپنی طرف سے ان الفاظ کا اضافہ کرتے: «لبيك لبيك وسعديك والخير في يديك لبيك والرغباء إليك والعمل»”حاضر ہوں تیری خدمت میں حاضر ہوں تیری خدمت میں اور خوش ہوں تیری تابعداری پر اور ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی دونوں ہاتھوں میں ہے اور تیری طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے“۔