كتاب البيوع کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل 28. بَابُ: بَيْعِ الثَّمَرِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلاَحُهُ باب: پھلوں کو پختگی ظاہر ہونے سے پہلے نہ بیچنے کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک پختگی ظاہر نہ ہو جائے پھلوں کی بیع نہ کرو“، آپ نے بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو (اس سے) منع فرمایا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/التجارات 32 (2214)، (تحفة الأشراف: 8302)، مسند احمد (2/ 123) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: پھلوں کی پختگی ظاہر ہونے سے پہلے اگر ان کو درخت پر بیچ دیا گیا تو بہت ممکن ہے کہ پختگی ظاہر ہونے سے پہلے آندھی طوفان آئے اور سارے یا اکثر پھل برباد ہو جائیں اور خریدار کا نقصان ہو جائے، اور پختگی ظاہر ہونے کے بعد اگر آندھی طوفان آئے بھی تو کم پھل برباد ہوں گے، نیز پختہ پھل اگر گر بھی گئے تو خریدار کی قیمت بھر پیسہ نکل آئے گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پختگی ظاہر ہونے سے پہلے پھل بیچنے سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 13 (1534)، (تحفة الأشراف: 6832)، مسند احمد (2/8) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھل نہ بیچو جب تک اس کی پختگی ظاہر نہ ہو جائے، اور نہ (کھجور کے) درخت کے پھل کا اندازہ کر کے (درخت سے توڑی ہوئی) کھجوروں کو بیچو“۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں: مجھ سے سالم بن عبداللہ نے اپنے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جیسی صورت سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 13 (1538)، سنن ابن ماجہ/التجارات 32 (2215)، (تحفة الأشراف: 13328)، وحدیث ابن شہاب قد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع 87 (2199 تعلیقًا)، صحیح مسلم/البیوع 13 (1538)، (تحفة الأشراف: 6984)، مسند احمد (3/262، 363، وانظر حدیث رقم: 4523 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا: ہمارے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر فرمایا: ”پھل مت بیچو یہاں تک کہ اس کی پختگی ظاہر ہو جائے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 7105) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مخابرہ، مزابنہ، محاقلہ سے، اور پکنے سے پہلے پھل بیچنے سے منع فرمایا، اور پھلوں کو درہم و دینار کے سوا کسی اور چیز کے بدلے بیچنے سے منع فرمایا، اور بیع عرایا میں رخصت دی۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3910 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «مخابرہ»: بیل میں لگی ہوئی انگور کو کشمش (توڑی ہوئی خشک انگور) سے بیچنا، یا کھیت کو اس طرح بٹائی پر دینا کہ پیداوار کٹنے کے وقت کھیت کا مالک یہ کہے کہ فلاں حصے میں جو پیداوار ہے وہ میں لوں گا، ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ایک ہی کھیت کے مختلف حصوں میں مختلف انداز سے اچھی یا خراب پیداوار ہوتی ہے، اور کھیت کا مالک اچھی والی پیداوار لینا چاہتا ہے، یہ جھگڑے فساد یا دوسرے فریق کے نقصان کا سبب ہے، اس لیے بٹائی کے اس معاملہ سے روکا گیا، ہاں مطلق پیداوار کے آدھے یا تہائی پر بٹائی کا معاملہ صحیح ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر میں کیا تھا۔ ۲؎ «مزابنہ»: درخت پر لگے ہوئے پھل کو توڑے ہوئے پھل کے معینہ مقدار سے بیچنے کو «مزابنہ» کہتے ہیں۔ «محاقلہ»: کھیت میں لگی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے غلّہ سے بیچنا۔ «عرایا»: «عرایا» یہ ہے کہ باغ کا مالک ایک یا دو درخت کے پھل کسی مسکین کو کھانے کے لیے مفت دیدے اور باغ کے اندر اس کے آنے جانے سے تکلیف ہو تو مالک اس درخت کے پھلوں کا اندازہ کر کے مسکین سے خرید لے اور اس کے بدلے تازہ تر یا خشک کھجور اس کے حوالے کر دے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مخابرہ، مزابنہ، محاقلہ اور کھانے کے لائق ہونے سے پہلے درخت پر لگے پھلوں کو بیچنے سے منع فرما، یا سوائے بیع عرایا کے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3910 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بیع عرایا کا استثناء بیع مزابنہ سے ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور بیچنے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ کھانے کے لائق نہ ہو جائے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 2985)، مسند احمد (3/357، 372) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|