كتاب البيوع کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل 30. بَابُ: وَضْعِ الْجَوَائِحِ باب: ناگہانی آفت سے ہونے والے خسارے کے معاوضے (بدلے) کا بیان۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم نے اپنے (مسلمان) بھائی سے پھل بیچے پھر اچانک ان پر کوئی آفت آ گئی تو تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم اس سے کچھ لو، آخر تم کس چیز کے بدلے میں ناحق اپنے (مسلمان) بھائی کا مال لو گے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 3 (البیوع24) (1554)، سنن ابی داود/البیوع 60 (3470)، سنن ابن ماجہ/التجارات 33 (2219)، (تحفة الأشراف: 2798)، سنن الدارمی/البیوع 22 (2598) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس طرح کے حادثہ میں بیچنے والے کے اوپر لازم ہے کہ خریدار کا جتنا نقصان (خسارہ) ہوا ہے اتنے کی وہ بھرپائی کر دے ورنہ وہ مسلمان بھائی کا مال کھا لینے کا مرتکب گردانا جائے گا، اور یہ اس صورت میں ہے جب پھل ابھی پکے نہ ہوئے ہوں، یا بیچنے والے نے ابھی خریدار کو مکمل قبضہ نہ دیا ہو، ورنہ پھل کے پک جانے اور قبضہ دے دینے کے بعد بیچنے والے کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے، اس طرح کا معاملہ ایک آدمی کے ساتھ پیش آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیچنے والے سے بھر پائی کرانے کی بجائے عام لوگوں سے خریدار پر صدقہ و خیرات کرنے کی اپیل کی جیسا کہ حدیث نمبر: ۴۵۳۴ میں آ رہا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے پھل بیچے پھر ان پر کوئی آفت آ گئی تو وہ اپنے بھائی سے (کچھ) نہ لے، آخر تم کس چیز کے بدلے میں اپنے مسلمان بھائی کا مال کھاؤ گے“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آفتوں کا نقصان دلوایا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 3 (البیوع24) (1554)، سنن ابی داود/البیوع 24 (3374)، (تحفة الأشراف: 2270)، مسند احمد (3/309) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کے پھلوں پر جسے اس نے خرید رکھا تھا کوئی آفت آ گئی، چنانچہ اس پر بہت سارا قرض ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے خیرات دو“، تو لوگوں نے اسے خیرات دی، لیکن خیرات اتنی اکٹھا نہ ہوئی جس سے اس کے تمام قرض کی ادائیگی ہو جاتی تو آپ نے (اس کے قرض خواہوں سے) کہا: ”جو پا گئے ہو وہ لے لو، اس کے علاوہ اب کچھ اور دینا لینا نہیں ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 4 (البیوع25) (1556)، سنن ابی داود/البیوع 60 (3469)، سنن الترمذی/الزکاة 24 (655)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 25 (2356)، (تحفة الأشراف: 4270)، مسند احمد (3/56، 58)، ویأتي عند المؤلف في باب 95 برقم: 4682 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ گویا مصیبت میں تمہاری طرف سے اس کے ساتھ رعایت و مدد ہے۔ اس واقعہ میں پھلوں پر آفت آنے کا معاملہ پھلوں کے پک جانے کے بعد بیچنے پر ہوا تھا، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیچنے والے سے بھرپائی کرانے کے بجائے عام لوگوں سے خیرات دینے کی اپیل کی، اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرض خواہ بقیہ قرض سے ہاتھ دھو لیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حاکم موجودہ مال کو قرض خواہوں کے درمیان بقدر حصہ تقسیم کر دے پھر بھی اس شخص کے ذمہ قرض خواہوں کا قرض باقی رہ جائے تو ایسی صورت میں قرض خواہ اسے تنگ کرنے، قید کرنے اور قرض کی ادائیگی پر مزید اصرار کرنے کے بجائے اسے مال کی فراہمی تک مہلت دے۔ حدیث کا مفہوم یہی ہے اور قرآن کی اس آیت «وإن کان ذوعسرۃ فنظرۃ إلی میسرۃ» کے مطابق بھی ہے کیونکہ کسی کے مفلس (دیوالیہ) ہو جانے سے قرض خواہوں کے حقوق ضائع نہیں ہوتے، رہی اس حدیث کی یہ بات کہ ”اس کے علاوہ اب تم کو کچھ نہیں ملے گا“ تو یہ اس آدمی کے ساتھ خاص ہو سکتا ہے، کیونکہ اصولی بات وہی ہے جو اوپر گزری۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|