كتاب البيوع کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل 94. بَابُ: بَيْعِ ضِرَابِ الْجَمَلِ باب: اونٹ سے جفتی کی اجرت لینے کا بیان۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ سے جفتی کرانے پر اجرت لینے سے، پانی بیچنے اور زمین کو بٹائی پر دینے سے ۱؎ یعنی آدمی اپنی زمین اور پانی کو بیچ دے تو ان سب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 8 (البیوع 29) (1565)، (تحفة الأشراف: 2822) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس بٹائی سے مراد وہ معاملہ ہے جس میں زمین والا زمین کے کسی خاص حصے کی پیداوار لینا چاہے، کیونکہ آدھے پر بٹائی کا معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اہل خیبر سے کیا تھا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإجارة 21 (2284)، دالبیوع 42 (3429)، سنن الترمذی/البیوع 42 (1273)، (تحفة الأشراف: 8233)، مسند احمد (2/14) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی کلاب کی شاخ بنی صعق کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے کے بارے میں سوال کیا، تو آپ نے اسے اس سے منع فرمایا، اس نے کہا: ہمیں تو اس کی وجہ سے تحفے ملتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البیوع 45 (1274)، (تحفة الأشراف: 1450) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگانے کی کمائی سے، کتے کی قیمت سے اور نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 13627)، مسند احمد (2/299) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 4135) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت سے اور نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البیوع 49 (1279تعلیقًام)، سنن ابن ماجہ/التجارات 9 (2160)، (تحفة الأشراف: 13407)، سنن الدارمی/البیوع 80 (2665) (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، اس لیے کہ ابوحازم نے صحابی کا ذکر نہیں کیا، لیکن پچھلی روایت (رقم 4617) سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
|