كتاب المزارعة کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل 2. بَابُ: ذِكْرِ الأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْىِ عَنْ كِرَاءِ الأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَاخْتِلاَفِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ باب: زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔
اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے قبیلہ یعنی بنی حارثہ کی طرف نکل کر گئے اور کہا: اے بنی حارثہ! تم پر مصیبت آ گئی ہے، لوگوں نے کہا: وہ مصیبت کیا ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرما دیا ہے۔ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! تو کیا ہم اسے کچھ اناج (غلہ) کے بدلے کرائے پر اٹھائیں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، وہ کہتے ہیں: حالانکہ ہم اسے گھاس (چارہ) کے بدلے دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، پھر کہا: ہم اسے اس پیداوار پر اٹھاتے تھے جو پانی کی کیاریوں کے پاس سے پیدا ہوتی ہے، آپ نے فرمایا: ”نہیں“، تم اس میں خود کھیتی کرو یا پھر اسے اپنے بھائی کو دے دو۔ مجاہد نے رافع بن اسید کی مخالفت کی ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 157) (صحیح) (اس کے راوی ”رافع بن اسید“ لین الحدیث ہیں، مگر متابعات وشواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: مخالفت یہ ہے کہ رافع بن اسید نے اس کو اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے، جب کہ مجاہد نے اس کو اسید بن ظہیر سے اور اسید نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کی حدیث سے روایت کیا ہے، اور رافع بن اسید لین الحدیث راوی ہیں، جب کہ مجاہد ثقہ امام ہیں، بہرحال حدیث صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ آئے تو کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں تہائی یا چوتھائی پیداوار پر (کھیتوں کو) بٹائی پر دینے سے اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے، مزابنہ درختوں میں لگے کھجوروں کو اتنے اور اتنے میں (یعنی معین) وسق کھجور کے بدلے بیچنے کو کہتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 32 (3398)، سنن ابن ماجہ/الرہون10(2460)، (تحفة الأشراف: 3549)، مسند احمد (3/464، 465، 466) ویأتي عند المؤلف بأرقام: 3895-3897) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ آئے تو کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے معاملے سے منع فرمایا ہے جو ہمارے لیے نفع بخش تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، آپ نے تمہیں محاقلہ سے منع فرمایا ہے، آپ نے فرمایا: ”جس کی کوئی زمین ہو تو چاہیئے کہ وہ اسے کسی کو ہبہ کر دے یا اسے ایسی ہی چھوڑ دے“، نیز آپ نے مزابنہ سے روکا ہے، مزابنہ یہ ہے کہ کسی آدمی کے پاس درخت پر کھجوروں کے پھل کا بڑا حصہ ہو۔ پھر کوئی (دوسرا) آدمی اسے اتنی اتنی وسق ۱؎ ایسی ہی (گھر میں موجود) کھجور کے بدلے میں لے لے۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں۔ اور صاع اڑھائی کلوگرام کا، یعنی وسق =۱۵۰ کلوگرام۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے کہا، اور میں اس (ممانعت کے راز) کو سمجھ نہیں سکا، پھر انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی بات سے روک دیا ہے جو تمہارے لیے سود مند تھی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لیے بہتر ہے اس چیز سے جو تمہیں فائدہ دیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں «حقل» سے روکا ہے۔ اور «حقل» کہتے ہیں: تہائی یا چوتھائی پیداوار کے بدلے زمین کو بٹائی پر دینا۔ لہٰذا جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس سے بے نیاز ہو تو چاہیئے کہ وہ اسے اپنے بھائی کو دیدے، یا اسے ایسی ہی چھوڑ دے، اور آپ نے تمہیں مزابنہ سے روکا ہے۔ مزابنہ یہ ہے کہ آدمی بہت سارا مال لے کر کھجور کے باغ میں جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سال کی اس مال کو (یعنی پاس میں موجود کھجور کو) اس سال کی (درخت پر موجود) کھجور کے بدلے اتنے اتنے وسق کے حساب سے لے لو۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3894 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی بات سے روک دیا جو ہمارے لیے مفید اور نفع بخش تھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہمارے لیے اس سے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔ آپ نے فرمایا: ”جس کے پاس زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے اور اگر وہ اس سے عاجز ہو تو اپنے (کسی مسلمان) بھائی کو کھیتی کے لیے دیدے“۔ اس میں عبدالکریم بن مالک نے ان (سعید بن عبدالرحمٰن) کی مخالفت کی ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3894 (صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ”اسید بن رافع“ لین الحدیث ہیں)»
وضاحت: ۱؎: عبدالکریم بن مالک کی روایت آگے آ رہی ہے، اور مخالفت ظاہر ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس کا ہاتھ پکڑا یہاں تک کہ میں انہیں لے کر رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے بیٹے (اسید) کے یہاں گیا، تو انہوں نے ان سے بیان کیا کہ میرے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائیے پر دینے سے منع فرمایا، تو طاؤس نے انکار کر دیا اور کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا ہے کہ وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ اور اس حدیث کو ابو عوانہ نے ابوحصین سے، اور ابوحصین نے مجاہد سے، اور مجاہد نے رافع رضی اللہ عنہ سے مرسلاً (یعنی منقطعا) روایت کیا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع21 (1550) (تحفة الأشراف: 3591) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سابقہ تمام سندوں میں مجاہد اور رافع کے درمیان یا تو اسید بن رافع بن خدیج یا اسید بن ظہیر کسی ایک کا واسطہ ہے اور اس سند میں یہ واسطہ ساقط ہے، اس لیے یہ سند منقطع ہے مگر متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی بات سے روک دیا جو ہمارے لیے نفع بخش اور مفید تھی، آپ کا حکم سر آنکھوں پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں زمین کو اس کی کچھ پیداوار کے بدلے کرائے پر دینے سے منع فرمایا۔ ابراہیم بن مہاجر نے ابوحصین کی متابعت کی ہے (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأحکام42(1384)، (تحفة الأشراف: 3578)، مسند احمد (1/286)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 2900-3903) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے ایک آدمی کی زمین کے پاس سے گزرے جسے آپ جانتے تھے کہ وہ ضرورت مند ہے، پھر فرمایا: ”یہ زمین کس کی ہے؟“ اس نے کہا: فلاں کی ہے، اس نے مجھے کرائے پر دی ہے، آپ نے فرمایا: ”اگر اس نے اسے اپنے بھائی کو عطیہ کے طور پردے دی ہوتی (تو اچھا ہوتا)“، تب رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے انصار کے پاس آ کر کہا بولے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی چیز سے روکا ہے جو تمہارے لیے نفع بخش تھی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لیے سب سے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3899 (صحیح) (سند میں راوی ’’ابراہیم‘‘ کا حافظہ کمزور تھا، اور سند میں انقطاع بھی ہے، لیکن متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «حقل» سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3899 (صحیح) (سابقہ متابعات کی وجہ سے یہ صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: «حقل» کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے مقصد تہائی اور چوتھائی کے بٹائی دینے کا معاملہ ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلے تو آپ نے ہمیں ایک ایسی چیز سے روک دیا جو ہمارے لیے نفع بخش تھی اور فرمایا: ”جس کے پاس کوئی زمین ہو تو چاہیئے کہ وہ اس میں کھیتی کرے یا وہ اسے کسی کو دیدے یا اسے (یونہی) چھوڑ دے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3894 (صحیح) (سابقہ متابعات کی وجہ سے یہ بھی صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہماری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کر آئے تو ہمیں ایک ایسی چیز سے روک دیا جو ہمارے لیے نفع بخش اور مفید تھی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہمارے لیے زیادہ بہتر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی کوئی زمین ہو تو وہ خود اس میں کھیتی کرے یا اسے چھوڑ دے یا اسے (کسی کو) دیدے“۔ اور اس بات کی دلیل کہ یہ حدیث طاؤس نے (رافع رضی اللہ عنہ سے خود) نہیں سنی ہے آنے والی حدیث ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3899 (صحیح) (سابقہ متابعات کی وجہ سے یہ بھی صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ طاؤس اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ آدمی اپنی زمین سونے، چاندی کے بدلے کرائے پر اٹھائے۔ البتہ (پیداوار کی) تہائی یا چوتھائی کے بدلے بٹائی پر دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ تو ان سے مجاہد نے کہا: رافع بن خدیج کے لڑکے (اسید) کے پاس جاؤ اور ان سے ان کی حدیث سنو، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے تو میں ایسا نہ کرتا لیکن مجھ سے ایک ایسے شخص نے بیان کیا جو ان سے بڑا عالم ہے یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بس اتنا فرمایا تھا: ”تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو اپنی زمین دیدے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اس پر ایک متعین محصول (لگان) وصول کرے“۔ اس حدیث میں عطاء کے سلسلہ میں اختلاف واقع ہے، عبدالملک بن میسرہ کہتے ہیں: «عن عطاء، عن رافع» (عطا سے روایت ہے وہ رافع سے روایت کرتے ہیں) (جیسا کہ حدیث رقم ۳۹۰۳ میں ہے) اور یہ بات اوپر کی روایت میں گزر چکی ہے اور عبدالملک بن ابی سلیمان ( «عن رافع» کے بجائے) «عن عطاء عن جابر» کہتے ہیں (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 10 (2330)، 18 (2342)، الہبة 35 (2634)، صحیح مسلم/البیوع 21(1550)، سنن ابی داود/البیوع 31 (3389)، سنن الترمذی/الأحکام 42 (1385)، سنن ابن ماجہ/الرہون 9 (2456)، 11(2464)، (تحفة الأشراف: 5735) مسند احمد (1/234، 281، 349) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی کوئی زمین ہو تو وہ خود اس میں کھیتی کرے اور اگر وہ اس سے عاجز ہو تو اپنے کسی مسلمان بھائی کو دیدے اور اس سے اس میں بٹائی پر کھیتی نہ کرائے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 17(1536)، (تحفة الأشراف: 2439)، مسند احمد (3/302، 304) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی کوئی زمین ہو تو وہ خود اس میں کھیتی کرے یا اسے اپنے بھائی کو دیدے اور اسے بٹائی پر نہ دے“۔ عبدالرحمٰن بن عمرو اوزاعی نے عبدالملک بن ابی سلیمان کی متابعت کی ہے (یہ متابعت آگے آ رہی ہے)۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کے پاس ضرورت سے زائد زمینیں تھیں جنہیں وہ آدھا، تہائی اور چوتھائی پر اٹھاتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی کوئی زمین ہو تو اس میں کھیتی کرے یا اس میں (بلا کرایہ لیے) کھیتی کرائے یا بلا کھیتی کرائے روکے رکھے“۔ مطر بن طہمان نے اوزاعی کی موافقت (متابعت) کی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 18 (2340)، الہبة 35 (2632)، صحیح مسلم/البیوع 17 (1536)، سنن ابن ماجہ/الرہون 7 (2451)، (تحفة الأشراف: 2424)، مسند احمد (3/355) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا اور کہا: ”جس کی کوئی زمین ہو تو اس میں کھیتی کرے یا کسی سے اس میں (بلا کرایہ لیے) کھیتی کرائے اور اسے کرائیے پر نہ دے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 17 (1536)، سنن ابن ماجہ/الرہون 7 (2454)، (تحفة الأشراف: 2486)، مسند احمد (3/369) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرائے پر اٹھانے سے منع فرمایا۔ زمین کو کرائے پر نہ دینے کے سلسلہ میں (روایت کرنے میں) عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج نے مطر کی موافقت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 16 (1536)، (تحفة الأشراف: 2487)، مسند احمد (3/395) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مخابرہ اور مزابنہ، محاقلہ سے اور ان پھلوں کو بیچنے سے منع فرمایا ہے جو ابھی کھانے کے قابل نہ ہوئے ہوں، سوائے بیع عرایا کے ۱؎۔ یونس بن عبید نے اس کی متابعت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 83 (2189)، المساقاة 17 (2380)، صحیح مسلم/البیوع 16 (1536)، (تحفة الأشراف: 2452، 2801)، مسند احمد (3/360، 381، 391، 392)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 4527، 4528، 4554) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مخابرہ: زمین کو آدھی یا تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی پر دینا، کہتے ہیں: مخابرہ ”خیبر“ سے ماخوذ ہے، یعنی خیبر کی زمینوں کے ساتھ جو معاملہ کیا گیا اس کو ”مخابرہ“ کہتے ہیں۔ حالانکہ خیبر میں جو معاملہ کیا گیا وہ جائز ہے، اسی لیے تو وہ معاملہ کیا گیا، مؤلف نے حدیث نمبر ۳۹۱۴ میں مخابرہ کی تعریف یہ کی ہے کہ ”انگور جو ابھی بیلوں میں ہو کو اس انگور کے بدلے بیچنا جس کو توڑ لیا گیا ہو، یہی سب سے مناسب تعریف ہے جو ”مزابنہ“ اور ”محاقلہ“ سے مناسبت رکھتی ہے۔ مزابنہ: درخت پر لگے ہوئے پھل کو توڑے ہوئے پھل کے بدلے معینہ مقدار سے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں۔ محاقلہ: کھیت میں لگی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے غلّہ سے بیچنا۔ عرایا: عرایا یہ ہے کہ مالک کا باغ ایک یا دو درخت کے پھل کسی مسکین و غریب کو کھانے کے لیے مفت دیدے، اور اس کے آنے جانے سے تکلیف ہو تو مالک اس درخت کے پھلوں کا اندازہ کر کے مسکین و فقیر سے خرید لے اور اس کے بدلے تر یا خشک پھل اس کے حوالے کر دے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ و مزابنہ اور مخابرہ نامی بیع سے اور غیر متعین اور غیر معلوم مقدار کے استثناء ۱؎ سے منع فرمایا ہے۔ (آگے آنے والی) ہمام بن یحییٰ کی روایت میں گویا یہ دلیل ہے کہ عطاء نے جابر رضی اللہ عنہ سے ان کی یہ حدیث نہیں سنی ہے ۲؎ جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ جس کے پاس زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 34 (3405)، سنن الترمذی/البیوع 55 (1290)، (تحفة الأشراف: 2495)، ویأتي عند المؤلف 4637 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بیچی ہوئی چیز میں سے بلا تعیین و تحدید کچھ لینے کی شرط رکھنا یا سارے باغ یا کھیت کو بیچ دینا اور اس میں سے غیر معلوم مقدار نکال لینا۔ ۲؎: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے عطاء کی یہ روایت صحیح بخاری میں موجود ہے (دیکھئیے حدیث نمبر ۳۹۰۵ تخریج) سندھی فرماتے ہیں: مؤلف نے «کالدلیل» کہا ہے ( «الدلیل» نہیں کہا ہے) جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بات مؤکد نہیں ہے۔ نیز یہ ممکن ہے کہ عطاء نے سلیمان سے سننے کے بعد پھر جابر رضی اللہ عنہ سے جا کر یہ حدیث سنی ہو۔ ایسا بہت ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی کوئی زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے یا اپنے بھائی سے اس میں (بلا کرایہ لیے) کھیتی کرائے لیکن اسے اپنے بھائی کو کرائیے پر نہ دے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 17 (1536)، (تحفة الأشراف: 2491)، مسند احمد (3/363) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے «حقل» (تہائی، چوتھائی پر بیع)، اور یہی مزابنہ ہے، سے منع فرمایا۔ ہشام نے معاویہ کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اسے «عن یحییٰ عن ابی سلمہ عن جابر» کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 17(1536)، (تحفة الأشراف: 3145) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ اور مخاضرہ سے منع فرمایا ہے۔ اور کہا مخاضرہ: پھل کو پکنے سے پہلے بیچنا اور مخابرہ (درخت کی) انگور کو خشک انگور کے اتنے اتنے صاع کے بدلے بیچنا ہے۔ اس میں عمرو بن ابی سلمہ نے یحییٰ کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اسے اپنے باپ ابوسلمہ سے، اور ابوسلمہ نے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3164) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا۔ محمد بن عمرو نے عمر بن ابی سلمہ اور یحییٰ دونوں کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اسے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 14986)، مسند احمد (2/484) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ اسود بن علاء نے ان سب کی مخالفت کی ہے، اور حدیثوں روایت کی ہے: ”عن ابی سلمۃ عن رافع بن خدیج“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 4431)، مسند احمد (3/67)، سنن الدارمی/البیوع 23 (2599) (حسن صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح الإسناد
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ و مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ اسے قاسم بن محمد نے بھی رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3590) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عثمان بن مرہ کہتے ہیں کہ میں نے قاسم سے بٹائی پر کھیت دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی نے دوسری مرتبہ (روایت کرتے ہوئے) کہا۔
تخریج الحدیث: «t»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
عثمان بن مرہ کہتے ہیں کہ میں نے قاسم سے زمین کرائے پر دینے کے سلسلے میں پوچھا تو وہ بولے: رافع بن خدیج نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر اٹھانے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ اس حدیث کی روایت میں سعید بن مسیب پر اختلاف واقع ہوا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: خود اس زمین سے پیدا ہونے والے غلہ کے بدلے کرایہ اٹھانے سے منع فرمایا، کیونکہ خود رافع رضی اللہ عنہ نے سونا چاندی کے بدلے کرایہ پر دینے کا فتویٰ دیا ہے۔ نیز مرفوعاً بھی روایت کی ہے (دیکھئیے حدیث رقم ۳۹۲۱، و ۳۹۲۹)۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
ابوجعفر خطمی جن کا نام عمیر بن یزید ہے، کہتے ہیں کہ میرے چچا نے مجھے اور اپنے ایک بچے کو سعید بن مسیب کے پاس بٹائی پر زمین دینے کے بارے میں مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا، تو انہوں نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ انہیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پہنچی تو وہ ان سے ملے۔ رافع رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنی حارثہ کے پاس آئے تو ایک کھیتی کو دیکھ کر فرمایا: ”ظہیر کی کھیتی کس قدر اچھی ہے!“ لوگوں نے عرض کیا: یہ (کھیتی) ظہیر کی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا یہ ظہیر کی زمین نہیں ہے؟“ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں! لیکن انہوں نے اسے بٹائی پر اٹھا رکھا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی کھیتی لے لو اور اس پر آنے والی خرچ اسے دے دو“، تو ہم نے اپنی کھیتی لے لی اور ان کا خرچہ انہیں لوٹا دیا۔ اسے طارق بن عبدالرحمٰن نے بھی سعید بن مسیب سے روایت کیا اور اس میں طارق سے روایت کرنے میں اختلاف ہوا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 32 (3399)، (تحفة الأشراف: 3558) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ ۱؎ اور فرمایا: ”کھیتی تین طرح کے لوگ کرتے ہیں: ایک وہ شخص جس کی اپنی ذاتی زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرتا ہے، دوسرا وہ شخص جسے عاریۃً (بلامعاوضہ) زمین دے دی گئی ہو تو وہ دی ہوئی زمین میں کھیتی کرتا ہے۔ تیسرا وہ شخص جس نے سونا چاندی (نقد) دے کر زمین کرایہ پر لی ہو“۔ اس حدیث کو اسرائیل نے طارق سے روایت کرتے ہوئے دونوں ٹکڑوں کو الگ الگ کر دیا ہے، پہلے ٹکڑے ۲؎ کو مرسلاً (بطور کلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) روایت کیا اور دوسرے ٹکڑے کو سعید بن مسیب کا قول بتایا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 32 (3400)، سنن ابن ماجہ/الرہون 7 (2449)، (تحفة الأشراف: 3557)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 3922-3924) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: محاقلہ سے مراد یہاں مزارعہ (بٹائی) پر دینا ہے اور مزابنہ سے مراد: درخت پر لگے کھجور یا انگور کا اندازہ کر کے اسے خشک کھجور یا انگور کے بدلے بیچنا ہے۔ ۲؎: پہلی بات سے مراد «نہیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن المحاقلۃ والمزابنۃ» ہے اور آخری بات سے مراد «إنما یزرع ثلاثۃ، الیٰ آخرہ» ہے۔ یعنی: پہلی روایت میں آخری ٹکڑے کو درج کر کے اس کو مرفوع بنا دیا ہے، حالانکہ یہ سعید بن مسیب کا اپنا قول ہے، اسرائیل کی روایت جسے انہوں نے طارق سے روایت کیا ہے، دونوں ٹکڑوں کو چھانٹ کر الگ الگ کر دیا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
تابعی سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ سے منع فرمایا ہے۔ سعید بن مسیب نے کہا، پھر راوی (اسرائیل) نے دوسری بات کو اسی طرح بیان کیا (یعنی دوسرا قول ابن المسیب کا ہے)، اسے طارق سے سفیان ثوری نے بھی روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3921 (حسن الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
طارق کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب کو کہتے سنا: تین قسم کی زمینوں کے علاوہ میں کھیتی درست نہیں: وہ زمین جو کسی کی اپنی ملکیت ہو، یا وہ اسے عطیہ دی گئی ہو، یا وہ زمین جسے آدمی سونے چاندی کے بدلے کرائے پر لی ہو۔ زہری نے صرف پہلی بات سعید بن سعید سے مرسلاً روایت کی۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3921 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح مقطوع
تابعی سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ اسے محمد بن عبدالرحمٰن بن لبیبہ نے سعید بن المسیب سے روایت کیا ہے اور «عن سعد بن أبي وقاص» کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، لیکن مرفوع روایات سے تقویت پاکر صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کھیتوں والے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنے کھیت کرائیے پر اس اناج کے بدلے دیا کرتے تھے جو کھیتوں کی مینڈھوں پر ہوتا ہے۔ تو وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اس سلسلے میں کسی چیز کے بارے میں انہوں نے جھگڑا کیا۔ تو آپ نے انہیں اس کے (غلہ کے) بدلے کرائے پر دینے سے منع فرما دیا اور فرمایا: ”سونے چاندی کے بدلے کرائے پر دو“۔ اس حدیث کو سلیمان بن یسار نے بھی رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اسے اپنے چچاؤں میں کسی چچا کی حدیث سے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 31 (3391)، (تحفة الأشراف: 3860)، مسند احمد (1/178، 182)، سنن الدارمی/البیوع 75 (2660) (حسن) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ’’محمد بن عکرمہ‘‘ لین الحدیث، اور ’’محمد بن عبدالرحمن بن لبیبہ‘‘ ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: حسن
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین میں بٹائی کا معاملہ کرتے تھے، ہم اسے تہائی یا چوتھائی یا غلہ کی متعینہ مقدار کے عوض کرائیے پر دیتے تھے۔ تو ایک دن میرے ایک چچا آئے اور انہوں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے معاملے سے روک دیا جو ہمارے لیے نفع بخش اور مفید تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہمارے لیے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے، آپ نے ہمیں زمین میں بٹائی کا معاملہ کر کے انہیں تہائی اور چوتھائی یا متعینہ مقدار کے غلے کے بدلے کرائیے پر دینے سے منع کیا ہے۔ اور زمین کے مالک کو حکم دیا ہے کہ وہ اس میں کھیتی کرے، یا اس میں (بلا کرایہ لیے) کھیتی کرائے اور اسے کرائے پر اٹھانا یا اس کے علاوہ جو صورتیں ہوں انہیں ناپسند فرمایا۔ ایوب نے اس حدیث کو یعلیٰ سے نہیں سنا ہے، (بلکہ بذریعہ کتابت روایت کی ہے جیسا کہ اگلی سند سے ظاہر ہے)۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 18 (2346)، 19 (2337)، صحیح مسلم/البیوع 18 (1548)، سنن ابی داود/البیوع 32 (3395)، سنن ابن ماجہ/الرہون 12 (2465)، (تحفة الأشراف: 3559، 15570)، مسند احمد (3/465، 4/169)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 3927- 3929، 3940، 3941) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم زمین میں بٹائی کا معاملہ کیا کرتے تھے، ہم اسے تہائی اور چوتھائی اور غلہ کی مقررہ مقدار کے بدلے کرائیے پر دیتے تھے۔ سعید نے بھی اسے یعلیٰ بن حکیم سے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بٹائی کا معاملہ کرتے تھے، پھر کہتے ہیں کہ ان کے ایک چچا ان کے پاس آئے اور بولے: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی چیز سے روک دیا ہے جو ہمارے لیے نفع بخش اور مفید تھی لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہمارے لیے زیادہ نفع بخش اور مفید ہے۔ ہم نے کہا: وہ کیا چیز ہے؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جس کی کوئی زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے یا اسے اپنے بھائی کو کھیتی کرنے کے لیے (بلا کرایہ) دیدے، لیکن اسے تہائی، چوتھائی اور معینہ مقدار غلہ کے بدلے کرائے پر نہ دے“۔ اسے حنظلہ بن قیس نے بھی رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور (حنظلہ سے روایت کرنے والے) ربیعہ کے تلامذہ نے ربیعہ سے روایت کرنے میں اختلاف کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3926 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے چچا نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس کے بدلے زمین کو بٹائی پر دیتے تھے جو پانی کی کیاریوں پر پیدا ہوتا تھا اور تھوڑی سی اس پیداوار کے بدلے جو زمین کا مالک مستثنی (الگ) کر لیتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے روک دیا۔ میں نے رافع رضی اللہ عنہ سے کہا: تو دینار اور درہم سے کرائے پر دینا کیسا تھا؟ رافع رضی اللہ عنہ نے کہا: دینار اور درہم کے بدلے دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اوزاعی نے لیث کی مخالفت کی ہے، (ان کی روایت آگے آ رہی ہے جس میں ”چچا“ کا ذکر نہیں ہے)۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3926 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
حنظلہ بن قیس انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے دینار اور چاندی کے بدلے زمین کو کرائے پر دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ اس پیداوار کے بدلے کرائے دیا کرتے تھے جو کیاریوں اور نالیوں کے اوپر پیدا ہوتی ہے، تو کبھی اس جگہ پیداوار ہوتی اور دوسری جگہ نہیں ہوتی اور کبھی یہاں نہیں ہوتی اور دوسری جگہ ہوتی، لوگوں کا بٹائی پر دینے کا یہی طریقہ ہوتا، اس لیے اس پر زجر و توبیخ ہوئی۔ رہی معین چیز (پر بٹائی) جس کی ضمانت دی جا سکتی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مالک بن انس نے بھی اوزاعی کی سند میں (چچا کے نہ ذکر کرنے میں) موافقت کی ہے لیکن الفاظ میں مخالفت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 7 (2327)، 12 (2332)، 19(2346)، الشروط 7 (2722)، صحیح مسلم/البیوع 19 (1547)، سنن ابی داود/البیوع 31 (3392)، سنن ابن ماجہ/الرہون 9 (2458) (تحفة الأشراف: 3553)، مسند احمد (3/463، 4/140، 142)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 3931-3933) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زمین کو کرائے پر دینے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے روکا ہے، میں نے کہا: سونے، چاندی کے بدلے؟ کہا: نہیں (اس سے نہیں روکا ہے)۔ آپ نے تو اس سے صرف اس کی پیداوار کے بدلے روکا ہے۔ رہا سونا اور چاندی (کے بدلے کرایہ پر دینا) تو اس میں کوئی حرج نہیں سفیان ثوری نے بھی اسے ربیعہ سے روایت کیا ہے لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سونے، چاندی کے بدلے صاف زمین کرائے پر اٹھانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: حلال ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، یہ زمین کا حق ہے۔ یحییٰ بن سعید نے بھی اسے حنظلہ بن قیس سے روایت کیا ہے اور اسے مرفوع کیا ہے جیسا کہ مالک نے ربیعہ سے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر أیضا حدیث رقم: 3930 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا، اس وقت سونا اور چاندی (زیادہ) نہیں تھا۔ تو آدمی اپنی زمین کیاریوں اور نالیوں پر ہونے والی پیداوار اور متعین چیزوں کے بدلے کرایہ پر دیتا تھا۔ اسے سالم بن عبداللہ بن عمر نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور اس میں زہری پر اختلاف ہوا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3930 (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
زہری سے روایت ہے کہ سالم بن عبداللہ نے کہا، اور پھر اسی طرح روایت بیان کی، اور (اس روایت میں) عقیل بن خالد نے مالک کی متابعت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 32 (3394)، (تحفة الأشراف: 15571)، مسند احمد (3/465، 143)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 3935، 3936، 3939) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سالم بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنی زمین کرائے پر اٹھاتے تھے، یہاں تک کہ انہیں معلوم ہوا کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ زمین کو کرائے پر اٹھانے سے روکتے ہیں، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے ملاقات کی اور کہا: ابن خدیج! زمین کو کرائے پر اٹھانے کے بارے میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا نقل کرتے ہیں؟ تو رافع رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: میں نے اپنے دو چچاؤں کو (کہتے) سنا (ان دونوں نے بدر میں شرکت کی تھی) وہ دونوں گھر والوں سے بیان کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرائے پر اٹھانے سے روکا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جانتا تھا کہ زمین کرائے پر اٹھائی جا سکتی ہے، پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو خوف ہوا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں کوئی ایسی نئی بات کہی ہو گی جسے وہ نہ جان سکے ہوں، چنانچہ انہوں نے زمین کو کرائے پر اٹھانا چھوڑ دیا۔ اسے شعیب بن ابی حمزہ نے مرسلاً روایت کیا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: شعیب نے اپنی روایت میں یوں کہا ہے: «عن الزھری قال بلغنا أن رافع بن خدیج» جب کہ آگے روایت آ رہی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
زہری کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ اپنے دو چچاؤں سے جو ان کے خیال میں غزوہ بدر میں شریک تھے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر اٹھانے سے منع فرمایا۔ اسے عثمان بن سعید نے بھی شعیب سے روایت کیا ہے اور اس میں ان کے دونوں چچاؤں کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3934(صحیح) (سند میں انقطاع کی وجہ سے یہ روایت صحیح نہیں ہے، لیکن متابعات سے تقویت پاکر صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
زہری کہتے ہیں کہ سعید بن مسیب کہتے تھے: سونے اور چاندی کے بدلے زمین کرائے پر اٹھانے میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ عبدالکریم بن حارث نے اس کے مرسل ہونے میں ان کی موافقت کی ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3580) (صحیح) (یہ روایت منقطع ہے، زہری کی رافع رضی الله عنہ سے ملاقات نہیں ہے، لیکن سابقہ متابعات کی وجہ سے صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی شعیب کی موافقت کی ہے اور یہ موافقت اس طرح ہے کہ زھری اور رافع کے درمیان سالم کا ذکر نہیں ہے جب کہ مالک اور عقیل نے سالم کا ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
۱؎: یعنی شعیب کی موافقت کی ہے اور یہ موافقت اس طرح ہے کہ زھری اور رافع کے درمیان سالم کا ذکر نہیں ہے جب کہ مالک اور عقیل نے سالم کا ذکر کیا ہے۔ شرافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا۔ زہری کہتے ہیں: اس کے بعد رافع رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: وہ لوگ زمین کو کرائے پر کیوں کر اٹھاتے تھے؟ وہ بولے: غلے کی متعینہ مقدار کے بدلے میں اور اس بات کی شرط ہوتی تھی کہ ہمارے لیے وہ بھی ہو گا جو زمین میں کیاریوں اور نالیوں پر پیدا ہوتا ہے۔ اسے نافع نے بھی رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کی روایت میں ان کے شاگردوں میں اختلاف ہوا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح) (یہ روایت بھی منقطع ہے، لیکن سابقہ متابعت سے تقویت پاکر صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
نافع کا بیان ہے کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو خبر دی کہ ہمارے چچا لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، پھر واپس آ کر خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیت کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ہمیں معلوم ہے کہ وہ (رافع) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں زمین والے تھے، اور اسے کرائے پر اس شرط پر دیتے تھے کہ جو کچھ اس کی کیاریوں کے کناروں پر جہاں سے پانی ہو کر گزرتا ہے پیدا ہو گا اور کچھ گھاس (چارہ) جس کی مقدار انہیں معلوم نہیں ان کی ہو گی۔ اسے ابن عون نے بھی نافع سے روایت کیا ہے لیکن اس میں ( «عمومتہ» کے بجائے) «بعض عمومتہ» کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3935 (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما زمین کا کرایہ لیتے تھے، انہیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی کوئی بات سننے کو ملی تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور رافع رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور میں ان کے ساتھ تھا، تو رافع رضی اللہ عنہ نے ان سے اپنے کسی چچا سے روایت کرتے ہوئے (یہ حدیث بیان کی) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، اس کے بعد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے ترک کر دیا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3926 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ زمین کا کرایہ لیتے تھے، یہاں تک کہ رافع رضی اللہ عنہ نے اپنے کسی چچا سے روایت کرتے ہوئے ان سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائیے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے اسے ترک کر دیا۔ اسے ایوب نے نافع سے، انہوں نے رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور ان کے چچاؤں کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3926 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے کھیت کرایہ پر اٹھاتے تھے، یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری دور میں انہیں معلوم ہوا کہ اس سلسلے میں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ممانعت نقل کرتے ہیں تو وہ ان کے پاس آئے، میں ان کے ساتھ تھا، انہوں نے رافع سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھیتوں کو کرائے پر دینے سے منع فرماتے تھے۔ اس کے بعد ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے ترک کر دیا، پھر جب ان سے اس کے متعلق پوچھا جاتا تو کہتے کہ رافع رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے۔ ایوب کی موافقت عبیداللہ بن عمر، کثیر بن فرقد اور جویریہ بن اسماء نے بھی کی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإجارة 22 (2285)، الحرث 18 (2343)، صحیح مسلم/البیوع 17 (1548)، سنن ابی داود/البیوع 32 (3394 تعلیقًا)، سنن ابن ماجہ/الرہون 8 (243)، (تحفة الأشراف: 3586)، مسند احمد (2/64، 3/464، 465، 4/140)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 3943-3946) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کھیتوں کو کرائیے پر دیتے تھے، ان سے کہا گیا کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے۔ نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما مقام بلاط کی طرف نکلے، میں ان کے ساتھ تھا، تو آپ نے رافع رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرائے پر دینے سے روکا ہے، چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے کرائے پر دینا چھوڑ دیا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3942 (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
نافع سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو بتایا کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ زمین کو کرائے پر دینے کے سلسلے میں حدیث بیان کرتے ہیں، تو میں اور وہ شخص جس نے انہیں بتایا تھا ان کے ساتھ چلے یہاں تک کہ وہ رافع رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے زمین کرائے پر اٹھانی چھوڑ دی۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3942 (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
نافع سے روایت ہے کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرائے پر اٹھانے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3942 (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی زمین کو اس میں پیدا ہونے والے غلہ کے بعض حصے کے بدلے کرائے پر دیتے تھے، پھر انہیں معلوم ہوا کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ اس سے روکتے اور کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، اس پر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رافع رضی اللہ عنہ کو جاننے سے پہلے ہم زمین کرائے پر اٹھاتے تھے۔ پھر آپ نے اپنے دل میں کچھ محسوس کیا، تو اپنا ہاتھ میرے مونڈھے پر رکھا یہاں تک کہ ہم رافع کے پاس جا پہنچے، پھر ابن عمر نے رافع سے کہا: کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین کرائے پر دینے سے منع فرماتے سنا ہے؟ رافع رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ”کسی چیز کے بدلے زمین کرائے پر نہ دو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3942 (شاذ) (اس روایت میں ”بشیٔ“ کا لفظ شاذ ہے، باقی باتیں صحیح ہیں)»
وضاحت: ۱؎: «بشیٔ» (کسی چیز کے بدلے) کا لفظ شاذ ہے، کیونکہ سونے چاندی کے عوض زمین کو کرایہ پر دینے کی بات صحیح اور ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني: شاذ بزيادة بشيء
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور (اس روایت میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے رویت کرنے والے) عمرو بن دینار سے روایت میں ان کے شاگردوں نے اختلاف کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3579) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ مخابرہ کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، یہاں تک کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخابرہ سے منع فرمایا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 17 (1547)، سنن ابی داود/ البیوع 31 (3389)، سنن ابن ماجہ/الرہون 8 (2450)، (تحفة الأشراف: 3566)، مسند احمد (1/234، 2/11، 3/463، 465، 4/142) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہاں ”مخابرہ“ سے مراد: بٹائی کا وہی معاملہ ہے جس کی تشریح حدیث نمبر ۳۸۹۳ کے حاشیہ میں گزری، یعنی: زمین کے بعض خاص حصوں میں پیدا ہونے والی پیداوار پر بٹائی کرنا، نہ کہ مطلق پیدا وار کے آدھا پر، جو جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار کو کہتے سنا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو سنا اور وہ مخابرہ کے بارے میں پوچھ رہے تھے تو وہ کہہ رہے تھے کہ ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ ہمیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے (خلافت یزید کے) پہلے سال ۱؎ میں خبر دی کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخابرہ سے منع فرماتے سنا ہے۔ ان دونوں (سفیان و ابن جریج) کی موافقت حماد نے کی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظرماقبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ واقعہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے آخری دور خلافت کا ہے، اس لیے پہلے سال سے مراد یزید کی خلافت کا پہلا سال ہے۔ (واللہ اعلم) قال الشيخ الألباني: صحيح
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا: ہم مخابرہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ جب پہلا سال ہوا تو رافع رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے۔ «عارم» محمد بن فضل نے یحییٰ بن عربی کی مخالفت کی ہے۔ اور اسے بسند «عن حماد عن عمرو عن جابر» روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3948 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ محمد بن مسلم طائفی نے حماد کی متابعت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 2518)، مسند احمد (3/338، 389) (صحیح) (اس کے راوی ’’عارم محمد بن الفضل‘‘ آخری عمر میں مختلط ہو گئے تھے، اور امام نسائی نے ان سے اختلاط کے بعد روایت لی تھی، لیکن سابقہ متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: یہاں بھی کرایہ پر دینے سے مراد زمین کے بعض حصوں کی پیداوار کے بدلے کرایہ پر دینا ہے، نہ کہ روپیہ پیسے، یا سونا چاندی کے بدلے، جو کہ اجماعی طور پر جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخابرہ، محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ سفیان بن عیینہ نے دونوں حدیثوں کو جمع کر کے ہے اور «عن ابن عمر و جابر» کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 2565) (صحیح) (اس کے راوی ”محمد بن مسلم“ حافظہ کے قدرے کمزور تھے، لیکن متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
عبداللہ بن عمر اور جابر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ اس کا پختہ ہو جانا واضح ہو جائے۔ نیز آپ نے مخابرہ یعنی زمین کو تہائی یا چوتھائی (پیداوار) کے بدلے کرایہ پر دینے سے منع فرمایا۔ اسے ابوالنجاشی عطاء بن صہیب نے بھی روایت کیا ہے اور اس میں ان سے روایت میں ان کے تلامذہ نے اختلاف کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 17 (1536)، تحفة الأشراف: 2538) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”کیا تم اپنے کھیتوں کو اجرت پر دیتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کے رسول! ہم انہیں چوتھائی اور کچھ وسق جو پر بٹائی دیتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو، ان میں کھیتی کرو یا عاریتاً کسی کو دے دو، یا اپنے پاس رکھو“۔ اوزاعی نے یحییٰ بن ابی کثیر کی مخالفت کی ہے اور «عن رافع عن ظہیر بن رافع» کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 18 (1548) سنن ابی داود/البیوع 32 (3394 تعلیقًا)، (تحفة الأشراف: 3574) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس (ہمارے چچا) ظہیر بن رافع رضی اللہ عنہ نے آ کر کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی چیز سے روکا ہے جو ہمارے لیے مفید و مناسب تھی۔ میں نے کہا: وہ کیا ہے؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور وہ سچا (برحق) ہے، آپ نے مجھ سے پوچھا: ”تم اپنے کھیتوں کا کیا کرتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: ہم انہیں چوتھائی پیداوار اور کچھ وسق کھجور یا جو کے بدلے کرائے پر اٹھا دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تم ایسا نہ کرو، یا تو ان میں خود کھیتی کرو یا پھر دوسروں کو کرنے کے لیے دے دو، یا انہیں یوں ہی روکے رکھو“۔ بکیر بن عبداللہ بن اشج نے اسے اسید بن رافع سے روایت کیا ہے، اور اسے رافع کے بھائی سے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث18(2339)، صحیح مسلم/البیوع18(1548)، سنن ابن ماجہ/الرہون10(2459)، (تحفة الأشراف: 5029)، مسند احمد (1/168) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اسید بن رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رافع کے بھائی نے اپنے قبیلے سے کہا: آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چیز سے منع فرمایا ہے، جو تمہارے لیے سود مند تھی اور آپ کا حکم ماننا واجب، آپ نے بیع محاقلہ سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 15531) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
عبدالرحمٰن بن ہرمز کہتے ہیں کہ میں نے اسید بن رافع بن خدیج انصاری کو بیان کرتے سنا کہ انہیں (یعنی صحابہ کو) بیع محاقلہ سے روک دیا گیا ہے، بیع محاقلہ یہ ہے کہ زمین کو اس کی کچھ پیداوار کے بدلے کھیتی کرنے کے لیے دے دیا جائے۔ اسے عیسیٰ بن سہل بن رافع نے بھی روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
عیسیٰ بن سہل بن رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ میں یتیم تھا اور اپنے دادا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی گود میں پرورش پا رہا تھا، میں جوان ہوا اور میں نے ان کے ساتھ حج کیا تو میرے بھائی عمران بن سہل بن رافع بن خدیج آئے اور کہا: اے ابا جان (دادا جان)! ہم نے اپنی زمین فلاں عورت کو دو سو درہم پر کرائے پردے دی ہے۔ انہوں نے کہا: میرے بیٹے! اسے چھوڑ دو، اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے علاوہ روزی دے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے روک دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع32(3401)، (تحفة الأشراف: 3569) (شاذ) (اس کے راوی ”عیسیٰ بن سہل“ لین الحدیث ہیں اور اس میں شاذ بات یہ ہے کہ اس میں مطلق کرایہ پر دینے سے ممانعت ہے، جب کہ خود رافع رضی الله عنہ کی اس روایت کے کئی طرق میں سونا چاندی پر کرایہ پر دینے کی اجازت مذکور ہے)»
قال الشيخ الألباني: شاذ
|