كتاب المزارعة کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل 1. بَابُ: الثَّالِثُ مِنَ الشُّرُوطِ فِيهِ الْمُزَارَعَةُ وَالْوَثَائِقُ باب: (سابقہ دو شرط قسم اور نذر کے ذکر کے بعد) تیسری شرط کا ذکر۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب تم کسی مزدور سے مزدوری کراؤ تو اسے اس کی اجرت بتا دو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3958)، مسند احمد (3/59، 68، 71)، مرفوعاً (ضعیف) (اس کے راوی ’’ابرہیم نخعی‘‘ کا ابو سعید خدری سے سماع نہیں ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے لیکن اس اثر کا معنی صحیح ہے، آگے کے آثار دیکھیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف موقوف
حسن بصری سے روایت ہے کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی آدمی کسی آدمی سے اس کی اجرت بتائے بغیر مزدوری کرائے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 18575) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح مقطوع
حماد بن ابی سلیمان سے روایت ہے کہ ان سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی مزدور سے اس کے کھانے کے بدلے کام لے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں (درست نہیں) یہاں تک کہ وہ اسے بتا دے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 18592) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح مقطوع
حماد اور قتادہ سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے سلسلے میں پوچھا گیا، جس نے ایک آدمی سے کہا: میں تجھ سے مکے تک کے لیے اتنے اور اتنے میں کرائے پر (سواری) لیتا ہوں۔ اگر میں ایک مہینہ یا اس سے کچھ زیادہ - اور اس نے فاضل مسافت کی تعیین کر دی - چلا تو تیرے لیے اتنا اور اتنا زیادہ کرایہ ہو گا۔ تو اس (صورت) میں انہوں نے کوئی حرج نہیں سمجھا۔ لیکن اس (صورت) کو انہوں نے ناپسند کیا کہ وہ کہے کہ میں تم سے اتنے اور اتنے میں کرائے پر (سواری) لیتا ہوں، اب اگر مجھے ایک مہینہ سے زائد چلنا پڑا ۱؎، تو میں تمہارے کرائے میں سے اسی قدر اتنا اور اتنا کاٹ لوں گا ۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 18593) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: سواری کی سست رفتاری کے سبب ایسا کرنا پڑا تو ایسا کروں گا ۲؎: متعین مسافت (دوری) کو تیزی کی وجہ سے وقت سے پہلے طے کر لینے پر زیادہ اجرت بطور انعام و اکرام ہے اس لیے دونوں نے اس کو جائز قرار دیا ہے، اور دھیرے دھیرے چلنے کی وجہ سے کرائے میں کمی کرنا ظلم اور دوسرے کے حق کو چھیننے کے مشابہ ہے، یہی وجہ کہ دونوں نے اس دوسری صورت کو مکروہ جانا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع
ابن جریج کہتے ہںي کہ میں نے عطا سے کہا: اگر میں ایک غلام کو ایک سال کھانے کے بدلے اور ایک سال تک اتنے اور اتنے مال کے بدلے نوکر رکھوں (تو کیا حکم ہے)؟ انہوں نے کہا: کوئی حرج نہیں، اور جب تم اسے اجرت (مزدوری) پر رکھو تو اس کے لیے تمہارا اس وقت اتنا کہنا کافی ہے کہ اتنے دنوں تک اجرت (مزدوری) پر رکھوں گا۔ (ابن جریج نے کہا) یا اگر میں نے اجرت (مزدوری) پر رکھا اور سال کے کچھ دن گزر گئے ہوں؟ عطاء نے کہا: تم گزرے ہوئے دن کو شمار نہیں کرو گے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 19075) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع
|