كتاب المزارعة کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل 0. بَابُ: 3 - باب ذِكْرِ اخْتِلاَفِ الأَلْفَاظِ الْمَأْثُورَةِ فِي الْمُزَارَعَةِ باب: مزارعت (بٹائی) کے سلسلے میں وارد مختلف الفاظ اور عبارتوں کا ذکر۔
ابن عون کہتے ہیں کہ محمد (محمد بن سیرین) کہا کرتے تھے: میرے نزدیک زمین مضاربت کے مال کی طرح ہے، تو جو کچھ مضاربت کے مال میں درست ہے، وہ زمین میں بھی درست ہے، اور جو مضاربت کے مال میں درست نہیں، وہ زمین میں بھی درست نہیں، وہ اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ وہ اپنی زمین کاشتکار کے حوالے کر دیں اس شرط پر کہ وہ (کاشتکار) خود اپنے آپ، اس کے لڑکے، اس کے دوسرے معاونین اور گائے بیل اس میں کام کریں گے اور وہ اس میں کچھ بھی خرچ نہیں کرے گا بلکہ تمام مصارف زمین کے مالک کی طرف سے ہوں گے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 19308) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: بٹائی کی یہ ایک جائز صورت ہے، واجب نہیں بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ زمین کا مالک کچھ بھی خرچ نہ کرے، تمام اخراجات کاشتکار کرے اور آدھی پیداوار کا حقدار ہو جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہود کو خیبر کے باغات اور اس کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ اس میں اپنے خرچ پر کام کریں گے اور اس کی پیداوار کا آدھا حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 1 (1551)، سنن ابی داود/البیوع 35(3408)، (تحفة الأشراف: 8424)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحرث 8 (2328) (في سیاق أطول من ذلک) 9 (2329)، سنن الترمذی/الأحکام 41 (1383)، سنن ابن ماجہ/الرہون 14 (2468)، مسند احمد (2/17، 22، 37)، سنن الدارمی/البیوع 71 (2656) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود خیبر کو خیبر کے باغات اور اس کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ اپنے خرچ پر اس میں کام کریں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کے پھل کا آدھا ہو گا۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھیت بٹائی پر دیے جاتے تھے اس شرط پر کہ زمین کے مالک کے لیے وہ پیداوار ہو گی جو نالیوں اور نہروں کی کیاریوں پر ہو اور کچھ گھاس جس کی مقدار مجھے معلوم نہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8425) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
عبدالرحمٰن بن اسود کہتے ہیں کہ میرے دو چچا تہائی اور چوتھائی پر کھیتی کرتے تھے اور میرے والد ان کے شریک ہوتے تھے۔ علقمہ اور اسود کو یہ بات معلوم تھی مگر وہ کچھ نہ کہتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 18953) (ضعیف الإسناد) (قاضی شریک ضعیف الحفظ اور ابواسحاق مختلط راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس میں سب سے بہتر یہ ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنی زمین سونے، چاندی کے بدلے کرائے پردے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5549) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوف
ابراہیم نخعی اور سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ وہ دونوں خالی زمین کو کرائے پر اٹھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 18430، 18687) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ شریح مضارب ۱؎ کے سلسلے میں صرف دو طرح کے فیصلے دیتے تھے، کبھی مضارب سے کہتے کہ تم اس مصیبت پر گواہ لے کر آؤ جس کی وجہ سے تم معذور قرار دیئے جاؤ، اور کبھی صاحب مال سے کہتے: تم اس بات کا گواہ لے کر آؤ کہ تمہارے امین (مضارب) نے خیانت کی ہے۔ ورنہ اس سے اللہ کی قسم لی جائے گی کہ اس نے خیانت نہیں کی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 18801) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: مضارب (راء کے زیر کے ساتھ) اسے کہتے ہیں جو کسی دوسرے کے مال سے تجارت کرے یعنی محنت اس شخص کی ہو اور پیسہ کسی اور کا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ خالی زمین کو سونے، چاندی کے بدلے کرائے پر اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفردبہ النسائي (تحفة الأشراف: 18707) (ضعیف) (اس کے راوی ’’شریک القاضی‘‘ ضعیف الحفظ ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد مقطوع
|