عبداللہ بن مالک کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی الله عنہما نے مزدلفہ میں نماز پڑھی اور ایک اقامت سے مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں ایک ساتھ ملا کر پڑھیں اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ پر ایسے ہی کرتے دیکھا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحج 65 (1929) (تحفة الأشراف: 7285) (صحیح) (ہر صلاة کے لیے الگ الگ اقامت کے ذکر کے ساتھ یہ حدیث صحیح ہے/ دیکھئے اگلی روایت)»
وضاحت: ۱؎: اس کے برخلاف جابر رضی الله عنہ کی ایک روایت صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے ایک اذان اور دو تکبیروں سے دونوں نمازیں ادا کیں اور یہی راجح ہے، «واللہ اعلم» ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1682 - 1690)
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن ابي إسحاق، عن سعيد بن جبير، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله، قال محمد بن بشار: قال يحيى: والصواب حديث سفيان. قال: وفي الباب عن علي، وابي ايوب، وعبد الله بن مسعود، وجابر، واسامة بن زيد. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر في رواية سفيان اصح من رواية إسماعيل بن ابي خالد، وحديث سفيان حديث صحيح حسن، والعمل على هذا عند اهل العلم، لانه لا تصلى صلاة المغرب دون جمع، فإذا اتى جمعا وهو المزدلفة جمع بين الصلاتين بإقامة واحدة ولم يتطوع فيما بينهما، وهو الذي اختاره بعض اهل العلم وذهب إليه، وهو قول سفيان الثوري، قال سفيان: وإن شاء صلى المغرب ثم تعشى ووضع ثيابه، ثم اقام فصلى العشاء، فقال بعض اهل العلم: يجمع بين المغرب والعشاء بالمزدلفة باذان وإقامتين، يؤذن لصلاة المغرب ويقيم ويصلي المغرب، ثم يقيم ويصلي العشاء، وهو قول الشافعي. قال ابو عيسى: وروى إسرائيل هذا الحديث عن ابي إسحاق، عن عبد الله، وخالد ابني مالك، عن ابن عمر وحديث سعيد بن جبير، عن ابن عمر هو حديث حسن صحيح ايضا، رواه سلمة بن كهيل، عن سعيد بن جبير، واما ابو إسحاق فرواه، عن عبد الله، وخالد ابني مالك، عن ابن عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ: قَالَ يَحْيَى: وَالصَّوَابُ حَدِيثُ سُفْيَانَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنُ عُمَرَ فِي رِوَايَةِ سُفْيَانَ أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، وَحَدِيثُ سُفْيَانَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، لِأَنَّهُ لَا تُصَلَّى صَلَاةُ الْمَغْرِبِ دُونَ جَمْعٍ، فَإِذَا أَتَى جَمْعًا وَهُوَ الْمُزْدَلِفَةُ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ وَلَمْ يَتَطَوَّعْ فِيمَا بَيْنَهُمَا، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَذَهَبَ إِلَيْهِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، قَالَ سُفْيَانُ: وَإِنْ شَاءَ صَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ تَعَشَّى وَوَضَعَ ثِيَابَهُ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَجْمَعُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمُزْدَلِفَةِ بِأَذَانٍ وَإِقَامَتَيْنِ، يُؤَذِّنُ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ وَيُقِيمُ وَيُصَلِّي الْمَغْرِبَ، ثُمَّ يُقِيمُ وَيُصَلِّي الْعِشَاءَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى إِسْرَائِيلُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَخَالِدٍ ابْنَيْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَحَدِيثُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَيْضًا، رَوَاهُ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَأَمَّا أَبُو إِسْحَاق فَرَوَاهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَخَالِدٍ ابني مالك، عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
اس سند سے بھی ابن عمر رضی الله عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں۔ محمد بن بشار نے ( «حدثنا» کے بجائے) «قال یحییٰ» کہا ہے۔ اور صحیح سفیان والی روایت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث جسے سفیان نے روایت کی ہے اسماعیل بن ابی خالد کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، اور سفیان کی حدیث صحیح حسن ہے، ۲- اسرائیل نے یہ حدیث ابواسحاق سبیعی سے روایت کی ہے اور ابواسحاق سبیعی نے مالک کے دونوں بیٹوں عبداللہ اور خالد سے اور عبداللہ اور خالد نے ابن عمر سے روایت کی ہے۔ اور سعید بن جبیر کی حدیث جسے انہوں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے، سلمہ بن کہیل نے اسے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے، رہے ابواسحاق سبیعی تو انہوں نے اسے مالک کے دونوں بیٹوں عبداللہ اور خالد سے اور ان دونوں نے ابن عمر سے روایت کی ہے، ۳- اس باب میں علی، ابوایوب، عبداللہ بن سعید، جابر اور اسامہ بن زید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اس لیے کہ مغرب مزدلفہ آنے سے پہلے نہیں پڑھی جائے گی، جب حجاج جمع ۱؎ یعنی مزدلفہ جائیں تو دونوں نمازیں ایک اقامت سے اکٹھی پڑھیں اور ان کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھیں گے۔ یہی مسلک ہے جسے بعض اہل علم نے اختیار کیا ہے اور اس کی طرف گئے ہیں اور یہی سفیان ثوری کا بھی قول ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ چاہے تو مغرب پڑھے پھر شام کا کھانا کھائے، اور اپنے کپڑے اتارے پھر تکبیر کہے اور عشاء پڑھے، ۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ مغرب اور عشاء کو مزدلفہ میں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ جمع کرے۔ مغرب کے لیے اذان کہے اور تکبیر کہے اور مغرب پڑھے، پھر تکبیر کہے اور عشاء پڑھے یہ شافعی کا قول ہے۔
وضاحت: ۱؎: جمع مزدلفہ کا نام ہے، کہا جاتا ہے کہ آدم اور حوا جب جنت سے اتارے گئے تو اسی مقام پر آ کر دونوں اکٹھا ہوئے تھے اس لیے اس کا نام جمع پڑ گیا۔