كِتَابُ: الصَّلَاةِ نماز کے احکام و مسائل 241. (8) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْحَدَّ الَّذِي أَصَابَهُ هَذَا السَّائِلُ اس بات کی دلیل کا بیان کہ اس سائل نے جس حدکا ارتکاب کیا تھا
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے وضو اور نماز کی ادائیگی سے معاف کردیا ہے وہ حد واجب کرنے والے زنا سے کم گناہ کا ارتکاب تھا
تخریج الحدیث:
کیونکہ ہر وہ کام جس سے الله تعالیٰ سختی سے منع کریں اس پر حد کا اطلاق ہو جاتا ہے، حد صرف اس گناه ہی کو نہیں کہتے جو کوڑے، رجم یا ہاتھ پاؤں کاٹنے کو واجب کر دیتا ہے، اللہ تعالی نے مطلقہ عورت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: «لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ .... فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ» [ سورة الطلاق ] ”تم اُنہیں اُن کے گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ از خود نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں یہ الله کی مقرر کردہ حدیں ہیں۔ جو شخص الله کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا۔“ اور ارشاد باری تعالی ہے: «تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا» [ سورة البقرة ] ”یہ اللہ تعالی کی حدیں ہیں تو ان سے تجاوز نہ کرو۔“ لہذا جس کام سے اللہ تعالی نے ڈانٹا ہے اُس پر حد کا اطلاق ہوتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اُن حدوں پر ٹھرنے کا حُکم دیا ہے تو اُن سے تجاوز کیا جائے نہ آگے بڑھا جائے۔
تخریج الحدیث:
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اُس نے بتایا کہ اُس نے کسی عورت کا بوسہ لیا ہے یا ہاتھ سے اُسے چُھوا ہے یا کچھ اور کام کیا ہے۔ گویا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا کفّارہ پوچھ رہا تھا۔ کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی «وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ» [ سورة هود ] ”دن کے دونوں سروں اور رات کی گھڑیوں میں نماز قائم کرو۔ یقیناًً ً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے۔“ کہتے ہیں کہ اُس شخص نے پوچھا، کیا یہ صرف میرے لیے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ میرے ہر اُمّتی کے لئے ہے جو اس پر عمل کرے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ نے سلیمان تمیمی کی سند سے مذکورہ بالا روایت ہی کی طرح روایت بیان کی ہے۔ اس میں ہے اُس نے ایک عورت کا بوسہ لیا ہے اس میں شک کے الفاظ بیان نہیں کیے۔ اور نہ یہ الفاظ روایت کیے ہیں کہ گویا کہ وہ اس کا کفّارہ پوچھ رہا تھا۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو اُس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، میں ایک عورت سے باغ میں ملا تو میں نے اُسے اپنے ساتھ چمٹالیا، اُس کے ساتھ پیار محبت کیا، اُسے بوسہ دیا اور اُس سے جماع کے سوا ہر کام کیا ہے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ”بیشک نیکیاں برائیوں کوختم کر دیتی ہیں۔ یہ نصیحت پکڑنے والوں کے لئے نصیحت ہے۔“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بلایا اور اُس پر یہ آیت تلاوت فرمائی۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، کیا یہ حُکم اس کے لئے خاص ہے یا تمام لوگوں کے لئے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ تمام لوگوں کے لئے ہے۔“
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
|